کوچنگ پر پہلے بھی آمادہ تھا، اب بھی تیار ہوں: محسن خان کا کرک نامہ کو خصوصی انٹرویو

1 1,054

پاکستان کی تاریخ میں متعدد ایسے کھلاڑی سامنے آئے ہیں جو اپنے کھیل کے ساتھ ساتھ اپنے خوبصورت چہرے سے بھی شائقین کے دلوں میں گھر کر گئے۔ ان میں سے ایک سابق اوپننگ بلے باز اور موجودہ چیف سلیکٹر محسن خان بھی شامل ہیں۔ محسن خان نے 1978ء میں انگلستان کے دورۂ پاکستان میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کاآغاز کیا۔

محسن خان برصغیر کے ان چند بلے بازوں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے انگلستان اور آسٹریلیا کی مشکل کنڈیشنز میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 1983-84ء میں دورۂ آسٹریلیا میں انہوں نے مسلسل ٹیسٹ مقابلوں میں سنچریاں جڑیں۔ انہوں نے ایڈیلیڈ میں 149 اور ملبورن میں 153 رنز بنائے جبکہ اس سے قبل وہ لارڈز کے تاریخی میدان میں ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بھی بنے۔ آپ 1983ء کے عالمی کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے والی قومی کرکٹ ٹیم میں بھی شامل تھے۔

انہوں نے 1977ء سے 1986ء کے درمیان 48 ٹیسٹ اور 75 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

محسن حسن خان لارڈز کے میدان میں ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی تھے (تصویر: Getty Images)
محسن حسن خان لارڈز کے میدان میں ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی تھے (تصویر: Getty Images)

بعد ازاں آپ نے بھارتی فلم انڈسٹری 'بالی ووڈ' میں کام کرنے کےلیے کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ آپ نے وہاں متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں گناہ گار کون، لاٹ صاحب، فاتح اور ساتھی سمیت دیگر فلمیں شامل ہیں۔ آپ نے بالی ووڈ کی معروف اداکارہ رینا رائے سے شادی بھی کی۔

2010ء میں آسٹریلیا کے تباہ کن دورے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے اقبال قاسم کی جگہ محسن خان کو پاکستان کا نیا چیف سلیکٹر مقرر کیا۔

محسن خان کرک نامہ کے خصوصی انٹرویوز کے سلسلے کے آج کے مہمان ہیں۔ آئیے ان سے کیے گئے سوالات اور جوابات ملاحظہ کرتے ہیں:

نمائندہ کرک نامہ: محسن صاحب! چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھالے آپ کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اپنی کارکردگی اور مقررہ اہداف کے حصول میں کس قد ر کامیاب رہے ؟

محسن خان: پاکستان کرکٹ بورڈ نے جب مجھے چیف سلیکٹر کے عہدے کی پیشکش تو میں نے یہ کام چیلنج سمجھ کر قبول کیا تھا۔ ملک کی نمائندگی کے بعد جو عزت، دولت، شہرت اللہ نے مجھے دی، اس کا بہترین صلہ یہی ہوسکتا ہے کہ آ پ صدقِ دل سے پاکستا ن کرکٹ کی خدمت کریں۔ یہی عزم لے کر میں نے کام کی شروعات کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری منتخب کردہ ٹیم نے عالمی کپ 2011ء میں بہترین کارکردگی دکھائی اور سیمی فائنل تک پہنچی اور پورے ٹورنامنٹ میں بہترین مقابلہ کر کے شائقین کے دل جیت لیے۔

نمائندہ کرک نامہ: چیف سلیکٹر کی حیثیت سے آپ نے کیا اہداف مقرر کر رکھے تھے ؟

محسن خان: میرا پہلا ہدف یہ تھا کہ دستیاب بہترین جونیئر اور سینئرکھلاڑیوں پر مشتمل بہترین ٹیم کی تشکیل دوں۔ جب سے میں نے عہدہ سنبھالا کئی نشیب و فراز آئے۔ کئی بہترین کرکٹرز نظم و ضبط کی وجہ سے ٹیم میں شامل نہیں ہوسکے۔ اس معاملے پر بورڈ نے جو کاروائی کی وہ پاکستان کرکٹ اور نظم و ضبط کے لیے ضروری تھی۔ پھر اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں جس طرح پاکستان اپنے تین بہترین کرکٹرز سے محروم ہوا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ تاہم اس کے باوجود قومی ٹیم نے اس دوران کئی کامیابیاں سمیٹیں۔ دورۂ انگلستان میں ٹیسٹ اور ایک روزہ میچز جیتے، نیوزی لینڈ کو اُس کی سرزمین پر شکست دی، جنوبی افریقہ کے خلاف مشکل ٹیسٹ سیریز برابر کھیلی۔ تمام تر گمبھیر صورتحال کے باوجود قومی کرکٹ ٹیم کی سمیٹی گئی یہ کامیابیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

نمائندہ کرک نامہ: ٹیم میں بیک اپ کے حوالے سے جو پلان تیا ر کیا اس کے نتائج پر کیا کہیں گے ؟

محسن خان: میرے خیال میں پاکستان ٹیم میں گزشتہ ایک سال میں کئی نوجوان کرکٹرز نے اچھی کارکردگی دکھائی۔ وہاب ریاض او ر اظہر علی تو آئی سی سی کے سال کے بہترین ابھرتے ہوئے کھلاڑی کے اعزاز کے لیے بھی نامز د ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان اب بھی دنیائے کرکٹ کے لئے ٹیلنٹ کے لحاظ سے ایک زرخیز مقام ہے۔ اس کے علاوہ جنید خان اور اعزاز چیمہ کی کارکردگی بھی باعث اطمینان ہے۔ محمد حفیظ گزشتہ ایک سال سے ہر طرز کی کرکٹ میں اپنا لوہا منوارہے ہیں۔ اس کے علاوہ عمر اکمل بھی باصلاحیت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سب کھلاڑی آنے والے سالوں میں پاکستان کرکٹ کو اوپر لے جائیں گے۔

نمائندہ کرک نامہ: پاکستا ن جیسے ملک میں، جہاں کرکٹ کو لوگ جنون حدتک چاہتے ہیں، ناکامی اور کامیابی دونوں پر کھل کا اظہار خیال کرتے ہیں، اب تک کیسا تجربہ رہا ؟

محسن خان: میرے خیال میں سلیکشن کاکام جہاں چیلنجز سے بھرپور ہے وہیں یہ 'ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا' سے بھی خالی ہے۔ مطلب کہ اگر ٹیم کی کارکردگی بہترین رہے تو کھلاڑ یوں، کپتان حتیٰ کہ کوچ کی بھی واہ واہ ہوجاتی ہے، پر سلیکشن کمیٹی کا نام کم ہی سننے میں آتا ہے، اور ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ لیکن ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ ان سب پر بھاری ہے۔

نمائندہ کرک نامہ: کرکٹ کی تینوں طرز کی کرکٹ کے لئے اسپیشلسٹس ہونے چاہئیں؟

محسن خان: دیکھیں اس سوال کے دو جواب ہیں، اگر تو کرکٹرخود کو ہر طرز کی کرکٹ میں ایڈجسٹ کرسکتا ہے تو پھر کوئی کرکٹر تینوں فارمیٹ بھی جگہ بناسکتا ہے۔ آپ کے سامنے محمد حفیظ کی مثا ل ہے، جو تینوں طرز کی کرکٹ میں نہ صرف خود کو ڈھال رہے ہیں بلکہ بھرپور کارکردگی بھی پیش کررہے ہیں۔ یقیناً ٹیسٹ کرکٹ کا اپنا ایک الگ مزاج ہے اور جارحانہ انداز میں کھیلنے والے ٹی ٹوئنٹی اسپیشلسٹ اِس طرز کی کرکٹ میں رنز نہیں کرسکے گا۔ لیکن پھر دہراؤں گا کہ اگر کرکٹر خود کو تینوں کرکٹ میں ڈھال سکتاہو تو پھر وہ کھیل سکتا ہے، ورنہ ہر طرز کے لیے موزوں کھلاڑ ی کھلانا ہی بہتر ہے۔

نمائندہ کرک نامہ: فاسٹ ٹریک کوچنگ پروگرام میں آپ نے بیٹنگ کوچنگ کی کیا آپ قومی ٹیم کی کوچنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں؟

محسن خان: فاسٹ ٹریک کوچنگ پروگرام میں کوچنگ میں نے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کی خواہش پر کی اور مجھے ذاتی طور پر بھی اِس تجربے میں کافی لطف آیا۔ اس پروگرام میں ہم نے بیٹسمینوں کی تکنیک پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ اِنہیں تمام طرز کی کرکٹ میں مختلف مراحل پر اننگز آگے بڑھانے سے متعلق اہم تجاویز دیں اور دباؤ میں کھیلنے کے حوالے سے مختلف صورتحال اور زاویوں سے ان کی تربیت کی۔

نمائندہ کرک نامہ: پاکستان کرکٹ ٹیم نئے کوچ کی تلاش میں ہے، کیا آپ اس عہدے کی خواہش رکھتے ہیں ؟

محسن خان: ابتداء میں جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے مجھے چیف سلیکٹر کے عہدے کی پیشکش تو میں اس وقت بھی کوچنگ کے لیے کسی حد تک آمادہ تھا، تاہم بعد میں سلیکشن کے شعبے کو سنبھالا۔ یہ معاملہ کیونکہ اب پی سی بی کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی کے پاس ہے، اس لیے اس پر زیادہ بات نہیں کروں گا۔ تاہم ملک کی خدمت کے لیے حاضر ہوں۔

نمائندہ کرک نامہ: آپ ملکی کوچ کے حق میں ہے یا غیر ملکی ؟

محسن خان: کوچ ملکی ہو یا غیر ملکی، بس وہ پاکستان کرکٹ سے لگاؤ رکھتاہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کھلاڑیوں کے ساتھ مل ٹیم کو آگے لے جانے کا جذبہ رکھتاہو۔ غیر ملکی کوچ کے حوالے سے باب وولمر کا تجربہ اچھا تھا۔ ان جیسا کوچ اگر غیر ملکی بھی مل جائے تو پاکستان کرکٹ کے لیے اچھا ہوگا لیکن ملکی کوچز بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کرکٹ بورڈ جو فیصلہ کرے گا وہ پاکستان کرکٹ کے مفاد میں ہوگا۔

نمائندہ کرک نامہ: آپ کا سلیکشن کمیٹی کے لیے بورڈ سے دو سال کا معاہدہ ہے،کیا آ پ اِس مدت کی تکمیل کے بعد کام کرنا چاہیں گے ؟

محسن خان: اِس معاہدے میں توسیع میری اوربورڈ دونوں کی منشا پر ہے۔ معاملات اچھے جارہے ہیں، ٹیم کی کارکردگی بھی اچھی ہے۔ لیکن معاہدے میں توسیع کا فیصلہ وقت آنے پر اپنی مرضی کے مطابق کروں گا۔

نمائندہ کرک نامہ: فلمی دنیا کو چھوڑے کافی عرصہ ہوا۔ شوبز میں اننگز کا دوبارہ آغا زہوسکتا ہے یا وہاں سے مکمل ریٹائرمنٹ لے لی؟

محسن خان: زندگی میں ایک اہم بات سیکھی ہے کہ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی اور فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ وقت اپنی راہوں کا تعین خود کرتا ہے۔ فلمی دنیا میں جب ہندوستان میں وقت گزارا، وہ سب پاکستان کی وجہ سے تھا۔ جتنی عزت ملی وہ سب اس لیے کہ میں پاکستانی کرکٹر تھا تاہم اِس وقت دوبارہ فلمی دنیا کا رُخ کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

نمائندہ کرک نامہ: کرکٹ کے علاوہ آپ کی اور کیا سرگرمیاں ہیں؟

محسن خان: چیف سلیکٹر بننے سے پہلے کراچی کی ایک نجی جامعہ میں بزنس کمیونی کیشن پر لیکچر دیتا تھا، یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ تاہم جب چیف سلیکٹر بنا تو جامعہ سے اجازت طلب کی کیونکہ ایک وقت میں دو اہم کام نہیں کیے جاسکتے تھے۔

نمائندہ کرک نامہ: محسن صاحب، اپنا قیمتی دینے کا بہت بہت شکریہ۔