فضل کے قائدانہ عہد کا آغاز کامیابی کے ساتھ

1 1,153

سرزمین غرب الہند پر سیریز کا آخری مقابلہ جیتنے کے بعد پاکستان نے اپنے وقت کے تمام ٹیسٹ ممالک کھیلنے والے ممالک کے خلاف فتوحات اپنے نام کیں اور اس کے ساتھ ہی کپتان عبد الحفیظ کاردار کے عہد کا اختتام ہوا۔

فضل محمود نے کپتان کی حیثیت سے پہلے ہی مقابلے میں 7 وکٹیں حاصل کیں اور فتح میں کلیدی کردار ادا کیا (تصویر: PCB)
فضل محمود نے کپتان کی حیثیت سے پہلے ہی مقابلے میں 7 وکٹیں حاصل کیں اور فتح میں کلیدی کردار ادا کیا (تصویر: PCB)

عبد الحفیظ نے اوسط درجے کا کھلاڑی ہونے کے باوجود پاکستان کی قیادت بہترین انداز میں کی اور محض چار سال کے عرصے میں پاکستان کے لیے ہمدردیاں نہیں بلکہ تعظیم و تکریم سمیٹی اور یہی عزت خود ان کو بھی ملی۔ صرف چار سال کے عرصے میں بابائے کرکٹ انگلستان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بھارت اور ویسٹ انڈیز تمام ٹیموں کے خلاف کم از کم ایک مرتبہ جیت حاصل کرنے کی مثال اس وقت تک کرکٹ تاریخ میں نہیں تھی۔ اسی سے اندازہ لگالیں کہ بھارت کو ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی اولین فتح کے لیے 20 سال کا طویل انتظار کرنا پڑا تھا جبکہ پاکستان نے صرف چار برسوں میں تمام ٹیسٹ ٹیموں کے خلاف فتوحات حاصل کیں۔ کپتان کو شایان شان الوداع کہنے کے بعد قیادت کی ذمہ داری فضل محمود کو سونپی گئی اور یوں پاکستان کرکٹ ایک نئے عہد میں داخل ہوگئی۔

سن 1958ء کے اواخر میں ویسٹ انڈیز طویل دورے کے لیے برصغیر میں وارد ہوا۔ بھارت میں 6 اور پاکستان میں 3 ٹیسٹ مقابلے طے ہوئے تھے جن میں سرزمین ہند پر ویسٹ انڈیز نے چار-صفر کی زبردست فتح سمیٹی اور پھر پاکستان کا رخ کیا۔ سر کلائیڈ والکوٹ اور سر ایورٹن ویکس دنیائے کرکٹ کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ ان کی جگہ جن کھلاڑیوں نے سنبھالی ان میں سب سے نمایاں ویزلے ہال تھے، وہی کے جنہوں نے ویسٹ انڈین باؤلنگ کو دوام بخشا۔ دورۂ برصغیر کے 8 مقابلوں میں 'ویز' نے 46 وکٹیں حاصل کیں۔ بہرحال، دوسری جانب پاکستان نے اعجاز بٹ اور گوا، غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہونے والے انتاؤ ڈی سوزا کو ٹیسٹ کیریئر کے آغاز کے موقع دیے۔

سیریز کا پہلا مقابلہ 20 فروری 1959ء بروز جمعہ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں شروع ہوا جہاں فضل محمود نے ٹاس جیت کر پہلے گیندبازی کی اور یہ فیصلہ کیا ہی اچھا ثابت ہوا۔ کونراڈ ہنٹے اسکور بورڈ کو چھیڑے بغیر وکٹوں کے پیچھے امتیاز احمد کو کیچ تھما گئے تو کچھ دیر بعد میزبان ٹیم کا مڈل آرڈر نسیم الغنی کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہی نسیم کہ جنہوں نے دورۂ ویسٹ انڈیز کے آخری ٹیسٹ میں فاتحانہ کارکردگی دکھائی تھی۔ محض 69 رنز تک پہنچتے پہنچتے ویسٹ انڈیز کی آدھی ٹیم آؤٹ ہو چکی تھی جن میں سے تین کھلاڑیوں کو نسیم نے جبکہ دو کو کپتان فضل نے ٹھکانے لگایا۔ ان میں سب سے قیمتی وکٹ گیری سوبرز کی تھی جنہیں فضل محمود نے صرف دو رنز کے مجموعے پر وکٹوں کے سامنے دھر لیا۔ اس مرحلے پر نووارد باسل بچر نے نوجوان ساتھی جوئے سولومن کے ساتھ مل کر قابو سے باہر ہوتی اننگز کو سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن 35 رنز کا اضافہ ہی کرپائے تھے کہ سولومن پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ڈی سوزا کا اولین شکار بن گئے۔ نویں وکٹ پر بچر اور ویزلے ہال کے درمیان 28 رنز کا اضافہ ہوا اور پھر آخری دو وکٹیں فضل محمود نے حاصل کرکے ویسٹ انڈین اننگز کا محض 146 رنز پر خاتمہ کردیا۔ بچر 45 رنز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔ پاکستان کی جانب سے فضل اور نسیم نے چار، چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ دو وکٹیں ڈی سوزا کو ملیں۔

اس شاندار آغاز کے بعد ویسٹ انڈیز کی رہی سہی امیدیں بھی اس وقت ختم ہوگئیں جبکہ حنیف محمد نے سعید احمد کے ساتھ نہ صرف پہلے دن مزید نقصان نہ ہونے دیا بلکہ دوسرے روز شراکت داری کو ریکارڈ 178 رنز تک پہنچا دیا۔ پاکستان کو 65 رنز کی برتری مل چکی تھی اور اس کی صرف ایک وکٹ گری تھی۔ حنیف محمد ساڑھے چھ گھنٹے پر محیط ٹیسٹ کیریئر کی چوتھی سنچری مکمل کر چکے تھے اور سعید بھی نصف سنچری کے بعد تہرے ہندسے کی جانب گامزن تھے کہ ان کے رن آؤٹ نے بدمزگی پیدا کردی۔ کچھ ہی دیر میں حنیف بھی 103 رنز کے ساتھ پویلین سے واپس آ گئے اور پھر کوئی پاکستان کی اننگز کو درست سمت میں گامزن نہ رکھ سکا۔ حنیف کے بعد محض 90 رنز کے اضافے سے پاکستان کی بقیہ 7 وکٹیں گرگئیں اور پوری ٹیم 314 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔

پاکستان کے رنز بنانے کی شرح انتہائی سست تھی اور یہی وجہ ہے کہ 160 سے زیادہ اوورز کھیلنے کے باوجود اسکور بورڈ پر صرف 304 رنز ہی سجا پائے یعنی دو رنز فی اوور کا اوسط بھی نہیں۔ البتہ برتری 158 رنز کی تھی جو ویسٹ انڈیز کے لیے کافی پریشان کن اور پاکستان کے لیے خاصی حوصلہ افزاء تھی۔

اس برتری کے علاوہ پاکستان کے باؤلرز بالخصوص فضل محمود اور محمود حسین کی عمدہ باؤلنگ تھی جس کی بدولت اس خسارے کو اتارنے سے پہلے ہی ویسٹ انڈیز اپنے 6 بلے بازوں سے محروم ہو چکا تھا۔ تیسرے اور پھر آرام کے دن کے بعد چوتھے روز کے ابتدائی مرحلے ہی میں فضل نے جان ہالٹ، کونراڈ ہنٹے اور گیری سوبرز کی قیمتی وکٹیں سمیٹیں تو دوسرے اینڈ سے محمود حسین نے روہن کنہائی اور کولی اسمتھ کو ٹھکانے لگایا۔ باسل بچر کے علاوہ واحد قابل ذکر مزاحمت جو سولومن نے کی جنہوں نے بالترتیب 61 اور 66 رنز بنائے اور سولومن کے رن آؤٹ کے ساتھ ویسٹ انڈیز کی دوسری اننگز 245 رنز پر تمام ہوئی۔

چوتھے روز کے اختتامی مراحل میں پاکستان کے اوپنرز حنیف محمد اور ڈیبیوٹنٹ اعجاز بٹ میدان میں اترے اور 27 کے مجموعے پر حنیف محمد کے ریٹائرڈ ہرٹ ہونے کے ساتھ ہی دن اپنے اختتام کو پہنچا اور آخری روز درکار 61 رنز بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے پورے کرلیے۔ اعجاز بٹ 41 اور سعید احمد 33 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔

ویسٹ انڈیز پر مسلسل دوسری فتح میں حنیف محمد کی سنچری، سعید احمد کے 78 رنز اور کپتان فضل محمود کی میچ میں 7 وکٹوں کے علاوہ نسیم الغنی کی پہلی اننگز میں 4 وکٹیں اور دوسری اننگز میں محمود حسین اور شجاع الدین کی بہترین باؤلنگ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

یوں پاکستان کے عظیم سپوت فضل محمود کے قائدانہ عہد کا آغاز ایک شاندار فتح کے ساتھ ہوا۔