[اقتباسات] ”خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ“ جاوید میانداد کی آپ بیتی سے (تیسری قسط)

0 1,114

کپتانی نے عمران میں شدید پسند اور ناپسند بھی پیدا کی تھی۔ وہ عام طور پر کسی کھلاڑی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے میں کچھ وقت ضرور لیتے تھے مگر ایک مرتبہ وہ رائے بنا لیتے تو پھر کوئی ان کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا۔ کچھ کھلاڑی ایسے بھی ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ ان کا کیریئر محض اس لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے برباد ہوگیا کہ وہ عمران کی ”نظر التفات“ حاصل نہیں کر سکے۔ یقیناً یہ عمران کی شخصیت کا منفی پہلو ہے کہ اگر وہ سمجھ لیں کہ آپ میں کوئی نہ کوئی کسر ہے تو انہیں ان کی رائے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ بہرکیف عمران میں بطور کپتان جو بھی خرابیاں رہی ہوں ان کو چیلنج نہیں کیا جاسکا کیونکہ ان کی قیادت میں ٹیم نے نت نئی بلندیوں اور فتوحات کو چھوا۔ پھر کون تھا جواس فارمولے پر انگشت زنی کرتا جو اتنا کارگر ثابت ہورہا تھا؟۔ میں البتہ کبھی کبھار عمران کی شخصیت کے اِس پہلو کے خلاف بولا کرتا تھا۔ ایسے مواقع بھی تھے جب میں نے محسوس کیا کہ عمران غلطی پر ہیں اور ان کی غلطی ہمیں میچ ہروا سکتی ہے۔ ایسے موقعوں پر میں کوشش کرتا کہ اپنی بات منواؤں اور میں منوا لیا کرتا تھا۔ اس کی بہترین مثال 1986-87ء کا بھارت کے خلاف کھیلے جانے والا بنگلور ٹیسٹ تھا، جہاں عمران فیصلہ کرچکے تھے کہ اقبال قاسم کی جگہ عبد القادر کو کھلائیں گے۔ میں محسوس کررہا تھا اس وکٹ پر قادر کی جگہ اقبال قاسم زیادہ موثر ثابت ہوں گے اور میں نے عمران پر زور دیا کہ وہ اپنا فیصلہ تبدیل کریں۔

ہمارے درمیان اچھے خاصے تلخ و ترش الفاظ کا تبادلہ ہوا حتیٰ کہ میں نے خدا اور ملک کا واسطہ دیا تب جا کر عمران مانے۔ مجھے نہیں یاد کہ جب قاسم نے اپنی باؤلنگ سے ہمیں تاریخ ساز کامیابی سے ہمکنار کیا تو عمران نے کسی پشیمانی کا اظہار کیا ہو۔

ایک سوال جو بار بار کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا میرے اور عمران کے درمیان کوئی پیشہ ورانہ رقابت تھی؟ میرا خیال ہے کہ یہ ایک احمقانہ سوال ہے۔ کیونکہ آخر یہ کیوں نہیں ہوتی؟ ہم دونوں committed performers تھے جو ہمہ وقت بہتر سے بہتر کارکردگی کی دھن میں جان لڑاتے تھے۔ اس لئے ایک دوسرے سے مقابلے کا رجحان ایک فطری امر تھا۔ اس قسم کا احساس پاکستان کے بیشتر صف اول کے کھلاڑیوں بلکہ غیرملکی کھلاڑیوں میں بھی عام رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرے لوگ انکار کریں مگر میں اقرار کروں گا کہ ہاں یہ احساس پایا جاتا ہے۔ ہاں، اس میں تسلیم کرنے کی اہم بات یہ ہے کہ یہ محض پیشہ ورانہ رقابت تھی جس کا سایہ ہم نے اپنی ذاتی تعلقات پر پڑنے نہیں دیا۔ میں ہمیشہ انتہائی کوشش کرتا کہ کرکٹ کے میدان کے یہ اختلافات ہمارے ذاتی تعلقات کی دنیا میں داخل نہ ہونے پائیں اور سچی بات ہے عمران بھی اس بارے میں خاصے محتاط رہے ہیں۔ عمران سے میرے ذاتی تعلقات کے بارے میں ہر قسم کی افواہیں پائی جاتی ہیں۔ ان کو کبھی پیچیدہ، کبھی ہنگامہ خیز، کبھی پریشان کن، اور کبھی کانٹوں سے آراستہ قرار دیا گیا۔ ان تمام افواہوں کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مسالہ اخبارات کے بارے میں ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ مجھ سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ عمران اور میں ہمیشہ بہت اچھے مراسم کا لطف اٹھاتے رہے ہیں۔ ہاں، ہم میں اختلافات ہوتے رہے ہیں اور کیوں نہ ہوتے؟ ہم کیسے کیسے میچز میں کھیلے ہیں۔ کیا کچھ داؤ پر لگتا رہا ہے کیسے کیسے حالات اور دباؤ کا ہم نے سامنا کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہر قسم کے حالات میں ہماری دوستی محفوظ رہی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عمران نے اپنی ساری کوشش اور جدوجہد لاہور میں اپنا کینسر ہسپتال مکمل کرانے میں لگا دی جو انہوں نے اپنی والدہ کی یاد میں قائم کیا۔ شوکت خانم میموریل ہسپتال اور ریسرچ سینٹر ملک کے صف اول کے طبی اداروں میں سے ایک ہے۔ عمران نے ابتداء میں 1987ء ورلڈ کپ مہم میں ناکامی کے بعد اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ وہ آسٹریلیا سے سیمی فائنل میں شکست کے بعد بددل ہوگئے تھے۔ لیکن یہ ریٹائرمنٹ زیادہ عرصے قائم نہیں رہی کیونکہ وہ 1988ء میں ویسٹ انڈیز کے دورے میں پاکستان کی قیادت کرنے بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آئے۔ اول تو عمران کو ابھی ریٹائر نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ ان میں اچھی خاصی کرکٹ ابھی باقی تھی مگر میرے خیال میں وہ اس لئے واپس آئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے انہیں کینسر ہسپتال کے لئے چندہ جمع کرنے میں مدد ملے گی۔ سچی بات ہے پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھی عمران کے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے میں مدد دی اور کئی مرتبہ اپنی انعامی رقومات عطیے میں دیں۔

جاوید میانداد کی آپ بیتی "Cutting Edge" سے اقتباس