انگلستان میں نیا تنازع، کیون پیٹرسن کا بین الاقوامی کیریئر اختتام کے قریب

2 1,022

کیون پیٹرسن انگلستان کے ’مرد اسرار‘ ہیں، ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ اچانک اپنی پٹاری سے کیا نکالیں گے؟ عین اس وقت جب مضبوط حریف، اور کیون کا آبائی وطن، جنوبی افریقہ انگلستان کی ٹیسٹ میں نمبر ایک پوزیشن کے درپے ہے، اور انہوں نے ہیڈنگلے میں اک تاریخی اننگز کھیل کر جنوبی افریقہ کو یقینی فتح سے بھی محروم کیا، اچانک ہی بورڈ اور ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ ان کے تنازعات ابھر کر سامنے آ گئے ہیں اور اب واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ کیون پیٹرسن کا بین الاقوامی کیریئر اپنے اختتام کو پہنچ چکا۔

انتظامیہ اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیٹرسن کو ہمیشہ کے لیے ٹیم سے باہر کر سکتی ہے (تصویر: AFP)
انتظامیہ اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیٹرسن کو ہمیشہ کے لیے ٹیم سے باہر کر سکتی ہے (تصویر: AFP)

پیٹرسن گزشتہ کچھ عرصے سے انڈین پریمیئر لیگ کی محبت میں مبتلا ہیں ۔ یوں وہ ویسے ہی اپنے تمام دیگر ساتھی انگلش کھلاڑیوں سے ممتاز ہیں۔ بلکہ آئی پی ایل یا بالفاظ دیگر پیسے کی محبت میں اتنا آگے نکل گئے کہ یہ تک کہہ ڈالا کہ انگلستان آئی پی ایل سے ”حسد“ کرتا ہے۔ اس بیان کے بعد سے ان کے سالوں سے بگڑے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا اور بالآخر وہ پہلے ون ڈے ٹیم سے ریٹائرمنٹ اور اب ٹیسٹ ٹیم سے اچانک اخراج پر منتج ہو سکتا ہے۔ اسی آئی پی ایل میں کھیلنے کے لیے وہ کچھ عرصے سے شیڈول میں تبدیلی کی خواہش کے اظہار کے بعد انتظامیہ سے برافروختہ تھے، اور اس کا غصہ انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف لارڈز میں ہونے والے آخری ٹیسٹ کے لیے اس امر کی تصدیق نہ کر کے اتارا کہ یہ اُن کا آخری ٹیسٹ نہيں ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے اس امر پر سخت غصہ طاہر کیا ہے کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے عہدیداران کے ساتھ ان کی نجی گفتگو ذرائع ابلاغ میں آ گئی۔

پیٹرسن نے کہا ہے کہ وہ میں کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ اگلا میچ میرا آخری ٹیسٹ نہیں ہوگا۔ میں جاری رکھنا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں رکاوٹیں ہیں جن پر کام کرنا ہے۔ میں ڈریسنگ روم میں بھی چند معاملات کو حل کرنا چاہتا ہوں۔

لارڈز میں اہم ٹیسٹ سے قبل اس طرح کے تبصرے سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ان کے خلاف انضباطی کارروائی ہو اور عین ممکن ہے کہ ’ٹیم اسپرٹ‘ کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں اگلے میچ کے لیے منتخب ہی نہ کیا جائے۔

کیون پیٹرسن نے تین ماہ قبل ہی ایک روزہ کرکٹ سے اچانک ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے سب کو حیران و ششدر کر دیا تھا۔ اس اچانک اعلان کے باعث انہوں نے، شایدلاعلمی میں، سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء میں اپنی شرکت کے امکانات کا بھی خاتمہ کر دیا۔ گو کہ انہوں نے بعد میں کوشش بھی کی لیکن قوانین سے بالاتر ہوکر اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کے باعث انگلش کرکٹ حلقوں میں ان کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچ چکا ہے۔ بہرحال، وہ اس نقصان کا ازالہ اپنی کارکردگی کے ذریعے پیش کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ تنازع سے ایسا لگتا ہے کہ اب ان کے واپس آنے کے امکانات 10 فیصد بھی نہیں رہے۔

بہرحال، ایک روزہ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ ناقص ثابت ہونے پر انہوں نے گزشتہ ماہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے عہدیداران سے ملاقاتیں کیں اور ٹیم انتظامیہ کے خلاف شکایات کا پلندہ کھول دیا۔

کیون پیٹرسن کا کہنا ہے کہ ”یہ بڑا شرمناک لمحہ ہوگا۔ میں انگلستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا پسند کرتا ہوں۔ اس پورے مرحلے کا افسوسناک ترین باب یہ ہے کہ شائقین مجھے دیکھنا اور میں انگلستان کے لیے کھیلنا چاہتا ہوں۔“

پیٹرسن نے تصدیق کی کہ ان کے مسائل میں آئی پی ایل کے لیے وقت، اپنے اہل خانہ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی خواہش اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے دستے میں انتخاب کی آرزو ہے۔ لیکن انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ اور بھی کئی معاملات تھے جنہیں حل کرنا اہم ہے۔ بات پیسے کی نہیں ہے۔ بات اصل میں سیاست کی ہے۔ اس لیے میرے لیے انگلستان کے جانب سے کھیلنا مشکل کر دیا گیا۔ ہر وقت میرے حوالے سے افواہیں جنم لیتی رہتی ہیں۔

پیٹرسن کا کہنا ہے کہ 2008ء کے اواخر میں انگلستان کی قیادت سے محرومی کے ایام کی یاد ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت بھی کوچ پیٹر مورس کے ساتھ ان کی نجی گفتگو منظرعام پر آ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے عوامی رائے ان کے خلاف چلی گئی تھی۔

دوسری جانب انگلستان کرکٹ انتظامیہ تمام کھلاڑیوں کے ساتھ یکساں رویہ رکھنے کے اصول کی پابندی کرنا چاہتی ہے اور چاہتی ہے کہ کھلاڑیوں کو انفرادی حیثیت میں اہمیت دینے کے بجائے ٹیم کو اولیت دی جائے گی۔

ایک اہم سیریز کے نازک ترین مرحلے پر، جب حریف ٹیم کو سیریز میں ناقابل شکست برتری حاصل ہو، انگلستان کی کرکٹ ٹیم میں اک نئے تنازع کا سامنا آنا، ان کی نمبر ایک پوزیشن کے لیے ایک بہت ہی بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ لارڈز ٹیسٹ کے لیے اعلان کردہ ٹیم میں پیٹرسن شامل ہوں گے یا نہیں۔ یہ ٹیسٹ 16 اگست سے اس تاریخی میدان میں شروع ہوگا جہاں انگلستان کو سیریز بچانے کے لیے لازماً فتح حاصل کرنا ہوگی۔