نئے کھلاڑیوں کو مسلسل مواقع ملیں تو وہ اپنی اہلیت ثابت کریں: خالد لطیف

0 1,112

دس سال قبل انڈر-19 ورلڈ کپ بنگلہ دیش میں کھیلا گیا تھا جہاں پاکستان نے خالد لطیف کی قیادت میں فائنل جیت کر پہلی بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ وہ ایک یادگار ورلڈ کپ تھا، جدید کرکٹ کے کئی ستارے اسی ٹورنامنٹ سے منظرعام پر آئے۔ انگلستان کے موجودہ کپتان ایلسٹر کک اور ایون مورگن، ویسٹ انڈیز کےکپتان دنیش رام دین، روی رامپال اور لینڈل سیمنز، بھارت کے شیکھر دھاون، دنیش کارتک، سریش رینا اور رابن اتھپا، زمبابوے کے کپتان برینڈن ٹیلر اور سری لنکا کے اوپل تھارنگا 2004ء میں ہی سامنے آئے اور پھر چھا گئے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ 10 سال گزر گئے، ٹورنامنٹ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا کوئی کھلاڑی آج تک ٹیم میں مستقل مقام حاصل نہیں کرسکا۔ فواد عالم نے آج تک صرف 3 ٹیسٹ، 35 ون ڈے اور 24 ٹی ٹوئنٹی کھیلے ہیں جبکہ ذوالقرنین حیدر ایک ٹیسٹ، 4 ایک روزہ اور 3 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں تک محدود رہے، ریاض آفریدی نے صرف ایک ٹیسٹ کھیلا جبکہ کپتان خالد لطیف کو 5 ایک روزہ اور 7 ٹی ٹوئنٹی سے زيادہ مواقع نہیں دیے گئے۔

انڈر19 ورلڈ کپ 2004ء کے فاتح کپتان خالد لطیف کو 10 سالوں میں صرف 5 ون ڈے اور 7 ٹی ٹوئنٹی کھلائے گئے (تصویر: Getty Images)
انڈر19 ورلڈ کپ 2004ء کے فاتح کپتان خالد لطیف کو 10 سالوں میں صرف 5 ون ڈے اور 7 ٹی ٹوئنٹی کھلائے گئے (تصویر: Getty Images)

فرسٹ کلاس کرکٹ میں 7433 رنز بنانے خالد لطیف اس ناانصافی پر شکوہ کناں نہیں بلکہ پرعزم دکھائی دیتے ہیں کہ وہ جلد اپنا مقام حاصل کرلیں گے۔ "کرک نامہ" سے خصوصی گفتگو کرتےہوئے خالد نے کہا کہ جس طرح مواقع ملنے چاہیے تھے، وہ مجھے نہیں ملے۔ خالد لطیف کو جنوری 2008ء میں زمبابوے کے خلاف ایک روزہ مقابلے میں موقع دیا گیا اور پھر 2010ء کے اس دورۂ آسٹریلیا میں آپ نے اپنا آخری ون ڈے کھیلا کہ جہاں پاکستان کو تمام مقابلوں میں شکست ہوئی تھی اور ٹیم کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔ آخری بار 2012ء میں سری لنکا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میں شرکت کی۔ 8 سالوں کے طویل عرصے میں صرف 5 ون ڈے اور 7 ٹی ٹوئنٹی کھلائے جانے کے بعد آخر کسی کھلاڑی سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ خالد لطیف بھی یہی کہتے ہیں کہ نوجوان کھلاڑیوں کو تسلسل کے ساتھ مواقع دینے کی ضرورت ہے لیکن میں اب بھی مایوس نہیں ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ڈومیسٹک میں دکھائی گئی کارکردگی کی بنیاد پر قومی ٹیم میں جگہ بنالوں گا۔ دراصل اس زمانے میں پاکستان کا مڈل آرڈر بہت مضبوط تھا۔ انضمام الحق، محمد یوسف اور یونس خان جیسے عظیم کھلاڑیوں کی موجودگی میں کسی دوسرے بیٹسمین کا جگہ بنانا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا۔

خالد لطیف نے بتایا کہ اپنے بیشتر ساتھی کھلاڑیوں کی طرح میں بھی بچپن سے کرکٹ کھیلتا آ رہا ہے اور انہی گلی محلوں میں کھیل کر آغاز کیا۔ اس دلچسپی میں اپنے بھائی کی وجہ سے مزید اضافہ ہوا، جو آج تک میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کرکٹ کو اپنا کیریئر بنانے پر گھر والوں نے بھی بہت سپورٹ کیا، جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔ چند روز قبل اپنی 29 ویں سالگرہ منانے والے خالد نے کہا کہ ابتداء ہی سے بھارت کے عظیم بیٹسمین سچن تنڈولکر میرے آئیڈیل تھے۔

جب خالد لطیف سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کے کچھ کھلاڑیوں نے دوسرے ملکوں سے کھیلنے کو ترجیح دی، جیسا کہ عمران طاہر جنوبی افریقہ اور فواد احمد آسٹریلیا کی نمائندگی کررہے ہیں، آپ نے کبھی اس بارے میں سوچا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ عمران طاہر کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ اسے یہ تک کہا گیا کہ تمہاری عمر بہت زیادہ ہوگئی ہے اس لیے تمہیں کھلانا ممکن نہیں۔ اس پر وہ جنوبی افریقہ چلا گیا اور وہاں منتقل ہوگیا اور اچھی کارکردگی کے ذریعے یہ مقام حاصل کیا۔ یہ ہمارے سلیکٹرز کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ بہرحال، عمران طاہر جس ملک کی طرف سے بھی کھیلے، اس کے ساتھ پاکستان کا نام ضرور لگے گا، اور اس شناخت کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ میری خدمات ہمیشہ سے پاکستان کے لیے ہیں اور میں اپنے ہی ملک کو پیش کروں گا۔

نئے بلے بازوں کے قحط کے بارے میں خالد لطیف نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی آمد سے انضمام الحق او رمحمد یوسف جیسے مستقل مزاج اور ٹھنڈے دماغ کے حامل بلے باز سامنے آنا کم ہوگئے ہیں۔ اب جلد باز بیٹسمینوں کا زمانہ ہے لیکن اگر کوئی باصلاحیت کھلاڑی موجود بھی ہے تو اس کو مواقع نہیں دیے جاتے یا چند مقابلوں میں آزمانے کے بعد ہمیشہ کے لیے باہر کردیا جاتا ہے۔ اس کے باوجد خالد لطیف نے پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کو وقت کی اہم ضرور قرار دیا ہے اور کہتے ہیں کہ مقامی کھلاڑیوں کو غیر ملکی پلیئرز کے ساتھ کھیلنے کا موقع دینا بہت ضروری ہے، اس سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور وہ اہم تجربہ حاصل کریں گے۔

ڈومیسٹک کرکٹ کی بہترین کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اقدامات کو سراہتے ہوئے خالد لطیف کہتے ہیں کہ قائد اعظم ٹرافی میں ہونے والی سرمایہ کاری سے قومی کرکٹ کو بہت فائدہ پہنچے گا، لیکن ضرورت ہے کہ کھلاڑیوں کی فیس میں تھوڑا اضافہ کیا جائے تاکہ وہ معاش کی فکر سے آزاد ہوکر اپنی پوری توجہ کھیل پر مرکوز کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک سطح پر اچھا ماحول فراہم کرنے اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی جیسی عالمی معیار کی اکیڈمی میں تربیت کے مواقع دیتا ہے جو لائق تحسین امر ہے۔

آسٹریلیا کے خلاف حالیہ ٹیسٹ سیریز جیت کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف جاری مقابلوں کے بارے میں خالد لطیف نے کہا کہ آسٹریلیا جیسی شاندار ٹیم کو شکست دینے کے بعد ٹیم کا مورال بہت بلند ہوگا اور کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان نیوزی لینڈ کو باآسانی شکست نہ دے سکے۔