بھارت اپنے ہی بچھائے گئے جال میں پھنس گیا، ممبئی میں انگلستان کی تاریخی فتح

2 1,034

انگلستان نے ممبئی میں تاریخی فتح سمیٹ کر بھارت کے خلاف سیریز 1-1 سے برابر کر ڈالی جس میں کلیدی کردار اسپن جوڑی سوان-پنیسر کی تباہ کن باؤلنگ اور کیون پیٹرسن اور کپتان ایلسٹر کک کی شاندار بلے بازی نے ادا کیا۔ یوں ممبئی کا وہ میدان جہاں 2006ء میں آخری مرتبہ انگلستان نے بھارت کو زیر کیا تھا، ایک مرتبہ پھر انگلستان کے لیے فتح گر ثابت ہوا۔

کیون پیٹرسن نے شاندار بلے بازی کے ذریعے اپنی واپسی کو درست ثابت کر دکھایا اور مرد میدان بھی قرار پائے (تصویر: BCCI)
کیون پیٹرسن نے شاندار بلے بازی کے ذریعے اپنی واپسی کو درست ثابت کر دکھایا اور مرد میدان بھی قرار پائے (تصویر: BCCI)

میچ کے فیصلہ کن عنصر دو رہے، ایک تو بھارت تین اسپنرز ہربھجن سنگھ، پراگیان اوجھا اور روی چندر آشون، کو کھلانے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرپایا جبکہ بھارتی بلے بازی مکمل طور پر ناکام ہوئی اور انگلستان نے شاندار بیٹنگ کی۔ اگر پہلی اننگز میں مین اِن فارم چیتشور پجارا سنچری نہ جڑتے تو عین ممکن تھا بھارت اننگز سے ہارتا لیکن اس بلے باز کی دوسری اننگز میں ناکامی نے بھارت کی رہی سہی امیدوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ دوسری جانب باؤلںگ میں مونٹی پنیسر اور گریم سوان نے کمال کر دکھایا۔ انہوں نے مجموعی طور پر 19 وکٹیں حاصل کیں، یعنی صرف ایک وکٹ ایسی تھی جو کسی تیز باؤلر کو ملی اور باقی تمام کھلاڑی اس جوڑی کے ہتھے چڑھے۔پنیسر نے میچ میں 11 جبکہ سوان نے 8 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

انگلستان کی واپسی بھی کیا شاندار تھی، کہاں ٹاس ہارنا اور پہلی ہی اننگز میں بھارت کے ہاتھوں 327 رنز کھانا؟ اور کہاں 413 رنز کا بھاری مجموعہ اکٹھاکرنے کے بعد دوسری اننگز میں حریف ٹیم کو 142 رنز پر ڈھیر کرنا؟ یہ دو بالکل متضاد صورتحال تھیں۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت اپنی حکمت عملی تھی، یعنی حریف ٹیم کے لیے بچھایا گیا اسپن جال۔ جس میں وہ انگلش بلے بازوں کا شکار کرنے چلا تھا، لیکن آخر میں خود پھنس گیا۔

ممبئی کی کہانی کا آغاز کرتے ہیں، پہلے دن سے جہاں جدید وانکھیڑے اسٹیڈیم میں مہندر سنگھ دھونی نے ٹاس جیتا تو ان کے چہرے پر سکون کی لہر تھی اور ایلسٹر کک کے چہرے پر پریشانی کے آثار۔ دھونی نے بغیر کسی توقف کے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور ایک اینڈ سے انگلش اسپنرز کی تباہ کن باؤلنگ کے باوجود وسرے اینڈ پر نوجوان چیتشور پجارا ڈٹے ہوئے تھے۔ لیکن بھارت کے لیے حالات سازگار نہ لگتے تھے، گوتم گمبھیر، وریندر سہواگ، سچن تنڈولکر، ویراٹ کوہلی اور یووراج سنگھ سب ناکام ہو کر پویلین لوٹ چکے تھے اور محض 119 پر بھارت اپنی پانچ وکٹیں گنوا بیٹھا تھا۔ اس صورتحال میں روی چندر آشون کے ساتھ ساتویں وکٹ پر 111 رنز کی ناقابل یقین رفاقت نے بھارت کو 300 کی نفسیاتی حد عبور کرنے میں مدد فراہم کی۔

350 گیندوں اور 451 منٹ تک انگلش اسپنرز کا مقابلہ کرنے والے پجارا نے 135 رنز کی اننگز میں 12 چوکے لگائے۔ اتنی عمدہ بلے بازی پر تو کئی سمتوں سے انہیں "راہول ڈریوڈ کا حقیقی جانشیں" تک کہا جا رہا ہے۔ بہرحال، بھارت کو 327 رنز کے بہترین مجموعے تک پہنچانے میں آشون کے 68 اور ہربھجن کے 21رنز بھی اہم تھے۔ انگلستان کی جانب سے مونٹی پنیسر نے 5 جبکہ گریم سوان نے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ایک وکٹ جیمز اینڈرسن کو ملی۔ اس دوران سوان نے انگلستان کی جانب سے 200 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے آف اسپنر بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

دوسرے روز کھانے کے وقفے سے قبل جب انگلستان نے اپنی پہلی باری کا آغاز کیا تو تو اسے کپتان ایلسٹر کک اور نک کومپٹن کے ہاتھوں 66 رنز کی رفاقت ملی۔ لیکن کومپٹن 29 رنز کے آؤٹ ہونے کے بعد تجربہ کار جوناتھن ٹراٹ کا صفر پر چلے جانا انگلستان کو بہت پریشان کن حالت سے دوچار کر گیا۔ اس موقع پر ایلسٹر کک اور کیون پیٹرسن کے درمیان میچ کی سب سے شاندار رفاقت، جسے فیصلہ کن بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، قائم ہوئی جس نے نہ صرف یہ کہ دوسرے دن انگلستان کو مزید کسی وکٹ کا نقصان نہ اٹھانے دیا بلکہ تیسرے روز 274 تک پہنچا کر مہمان ٹیم کو مضبوط پوزیشن پر بھی لا بٹھایا۔

انگلش قائد، جو احمد آباد میں بھی 176 رنز کی اننگز کھیل چکے تھے، نے اپنی بہترین فارم کا سلسلہ جاری رکھا اور اس مرتبہ 270 گیندوں پر 122 رنز بنا کر انگلش اننگز کو مستحکم کیا۔ وہ 336 منٹوں تک کریز پر ڈٹے رہے اور اس دوران ایک چھکا اور 13 چوکے بھی لگائے۔

دوسرے اینڈ پر موجود کیون پیٹرسن، جن کو بھارت کے دورے پر بلے بازی کو درپیش چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے 'دل پر پتھر رکھ کر' ٹیم میں شامل کیا گیا تھا، نے ثابت کر دیا کہ وہ ٹیم کے کتنے اہم رکن ہیں۔ اسپن جوڑی پنیسر-سوان کے علاوہ یہ کیون کی 186 رنز کی خوبصورت اننگز ہی تھی جس نے انگلستان کی تاریخی فتح کو ممکن بنایا۔ محض 233 گیندوں پر مشتمل اس باری کے دوران 'کے پی' نے 4 مرتبہ گیند کو براہ راست میدان سے باہر پھینکا جبکہ 20 چوکے بھی لگائے۔ میچ کے تیسرے روز صبح انہوں نے، اسپنرز کے لیے انتہائی سازگار حالات میں بھی، جس طرح بھارتی اسپن گیند بازی کے پرخچے اڑائے، وہ عرصے تک انگلش تماشائیوں کو یاد رہے گا۔ خصوصاً انہوں نے بھارت کے اہم ترین اسپنر پراگیان اوجھا کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں 7 چوکے اور 3 چھکے رسید کیے اور 74 رنز رسید کیے جبکہ آشون کو انہوں نے صرف 46 گیندوں پر 52 رنز مارے۔ انگلش اننگز کا کمزور پہلو یہ رہا کہ آخری 5 وکٹیں رنز میں صرف 32 رنز کا اضافہ کر سکیں البتہ لیکن اسے 86 رنز کی برتری ضرور ملی۔

بھارت کی جانب سے پراگیان اوجھا نے 5 جبکہ روی چندر آشون اور ہربھجن سنگھ نے دو، دو وکٹیں حاصل کیں۔

مونٹی پنیسر نے میچ میں 11 وکٹیں حاصل کر کے بھارتی بیٹنگ لائن اپ کی قلعی کھول دی (تصویر: BCCI)
مونٹی پنیسر نے میچ میں 11 وکٹیں حاصل کر کے بھارتی بیٹنگ لائن اپ کی قلعی کھول دی (تصویر: BCCI)

اب بھارت کا کڑا امتحان تھا۔ اس کی اسپن مثلث تو ناکام ہو ہی چکی تھی، لیکن اب اسے اپنی اصلی قوت یعنی بلے بازی کے سہارے پر اس میچ کو بچانا تھا۔ لیکن تیسرے روز کے آخری سیشن میں گویا بھارتی سورماؤں نے سوان اور پنیسر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ سہواگ 9، پجارا 6، تنڈولکر 8، کوہلی 7، یووراج 8 اور دھونی 6 بنا کر حریف اسپنرز کو وکٹیں تھما گئے اور جب تیسرے روز کا اختتام ہوا تو بھارت 117 رنز 7 کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ شکست کے دہانے پر کھڑا تھا۔ نوجوان چیتشور پجارا، جو سیریز میں اب تک دیگر ساتھی بلے بازوں کی ناکامی کا بھرم رکھتے آئے تھے، ان کے نہ چلنے کے باعث پوری ٹیم ڈھیر ہوتی نظر آئی۔

چوتھے دن آخری تین وکٹیں اسکور میں مزید صرف 25 رنز کا اضافہ کر پائیں اور بھارت کی دوسری اننگز 142 رنز پر تمام ہوئی۔ گوتم گمبھیر 65 رنز کے ساتھ قابل ذکر رہے، جو گرنے والی آخری وکٹ تھے۔ بدقسمتی سے وہ 'بیٹ کیری' نہ کر سکے۔ آشون کے علاوہ تو کسی بلے باز کی اننگز دہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہوئی۔ کیونکہ بھارت پہلی اننگز میں 86 رنز کے خسارے میں تھا اس لیے انگلستان کو صرف 57 رنز کا ہدف ملا ۔

پنیسر نے اِس مرتبہ 6 وکٹیں حاصل کیں، یعنی میچ میں ان کی وکٹوں کی تعداد 11 ہوئی جبکہ سوان نے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ یعنی دوسری اننگز کی تمام کی تمام وکٹیں اسپنرز کے ہاتھوں۔ انگلستان نے ان دونوں کے علاوہ صرف ایک باؤلر جمی اینڈرسن کو آزمایا اور ان سے بھی صرف 4 اوورز کروائے گئے۔

انگلستان نے ہدف کا تعاقب بہت تیزی کے ساتھ شروع کیا اور دسویں اوور میں ہی معمولی ہدف کو جا لیا اور تاریخی فتح حاصل کی۔

سیریز کی برابری میں کلیدی کردارادا کرنے پر کیون پیٹرسن کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اس شکست کے بعد بھارت میں تنقید کا اک نیا سلسلہ شروع ہوگا، اور اس مرتبہ ہدف مہندر سنگھ دھونی ہوں گے جو سیریز سے پہلے ہی سے انگلستان کو "اسپن جال" میں پھنسانے کی باتیں کر رہے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کولکتہ کے تاریخی ایڈن گارڈنز میں ہونے والے سیریز کے تیسرے معرکے میں کیا ہوگا؟ جہاں کی وکٹ بھی اسپنرز کے لیے مددگار سمجھی جاتی ہے۔