عظیم لیکن بدقسمت کھلاڑی جو عالمی کپ نہ جیت سکے

0 1,168

کرکٹ کے عالمی کپ کی 40 سالہ تاریخ میں پاکستان صرف ایک بار یہ ٹرافی جیت پایا ہے اور جن خوش نصیب کھلاڑیوں نے مارچ 1992ء میں ملبورن کے مقام پر یہ اعزاز حاصل کیا، ان میں سے ایک انضمام الحق بھی تھے۔ عالمی مہم کے مشکل ترین مرحلے پر انضمام الحق کی 37 گیندوں پر 63 رنز کی اننگز نے پاکستان کو پہلی بار عالمی کپ کے فائنل تک پہنچایا جہاں اس نے انگلستان کو شکست دے کر دنیائے کرکٹ کی حکمرانی کا تاج پہنا۔

وقار یونس اور سارو گانگلی، کرکٹ کی تاریخ کے دو عظیم نام جو کبھی عالمی کپ نہیں جیت سکے (تصویر: Reuters)
وقار یونس اور سارو گانگلی، کرکٹ کی تاریخ کے دو عظیم نام جو کبھی عالمی کپ نہیں جیت سکے (تصویر: Reuters)

لیکن کرکٹ کی تاریخ میں کئی عظیم کھلاڑی ایسے بھی گزرے ہیں، جنہوں نے کئی ریکارڈز کو تہہ و بالا کیا، دنیا بھر میں فتوحات حاصل کیں لیکن عالمی کپ سے محروم رہے۔ پاکستان کے سابق کپتان انضمام الحق نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی باضابطہ ویب سائٹ کے لیے لکھے گئے اپنے خصوصی مضمون میں انہی کھلاڑیوں کو یاد کیا ہے۔

'انضی' کی نظر میں تاریخ کے 12 کھلاڑی ایسے ہیں جو عالمی کپ جیتنے کے حقدار تھے، لیکن قسمت ان پر مہربان نہ ہوئی اور وہ دل میں یہ تمنا لیے ہی دنیائے کرکٹ سے رخصت ہوگئے۔ اس فہرست میں ہم وطن سعید انور اور وقار یونس بھی ہیں، بھارت کے سارو گانگلی، راہول ڈریوڈ اور انیل کمبلے بھی اور ساتھ ہی ویسٹ انڈیز کے برائن لارا ا ور کرٹلی ایمبروز، جنوبی افریقہ کے ژاک کیلس، ایلن ڈونلڈ اور جونٹی رہوڈز، انگلستان کے این بوتھم اور نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو بھی شامل ہیں۔

سب سے پہلے ہم وطن سعید انور کا ذکر کرتے ہوئے انضمام الحق لکھتے ہیں کہ "جس مہارت، قوت اور رفتار کے ساتھ وہ کھیلتے تھے، اس زمانے میں اُن جیسے کم ہی اوپنر تھے۔ 1999ء میں وہ عالمی کپ کے بہت قریب پہنچے، لیکن پاکستان فائنل میں آسٹریلیا سے ہار گیا۔ حالانکہ سعید اس وقت بہترین فارم میں تھے، وہ سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری تک بنا چکے تھے۔ انضمام نے 1997ء میں چنئی کے مقام پر بھارت کے خلاف 194 رنز اور عالمی کپ 2003ء میں سنچورین کے مقام پر کھیلی گئی اننگز کو کسی بھی اوپنر کی بہترین ایک روزہ اننگز میں شمار کیا۔

وقار یونس کے بارے میں انضمام نے لکھا کہ وہ 1992ء میں ہمارے ساتھ آسٹریلیا آئے تھے لیکن زخمی ہونے کی وجہ سے عالمی کپ سے پہلے ہی انہیں وطن واپس لوٹنا پڑا۔ "مجھے یاد ہے کہ جب ہم عالمی کپ جیتنے کے بعد وطن واپس پہنچے تھے تو وقار یونس ہوائی اڈے پر موجود تھے اور عالمی کپ جیتنے والے دستے میں شامل نہ ہونے پر افسردہ تھے۔ بدقسمتی سے ہماری مایوس کن کارکردگی 1999ء میں انہیں دوسرے موقع سے بھی محروم کرگئی۔ جب 2011ء میں وہ کوچ تھے تب بھی پاکستان بھارت کے ہاتھوں موہالی میں ہار گیا۔"

پڑوسی ملک بھارت کے سابق کپتان سارو گانگلی کے بارے میں انضمام الحق کا کہنا ہے کہ 2003ء کے عالمی کپ فائنل میں قسمت سارو پر مہربان نہیں ہوئی، شاید عالمی کپ ان کے نصیب میں نہیں تھا۔ اس کے علاوہ راہول ڈریوڈ بھی بھارت کی اس مضبوط بیٹنگ لائن کا حصہ تھے جس میں سچن، وریندر سہواگ، سارو اور ڈریوڈ شامل تھے لیکن یہ سب ایک ساتھ عالمی کپ نہ جیت سکے۔ آخری دونوں کھلاڑیوں کو 2003ء میں موقع ملا تھا لیکن رکی پونٹنگ نے 'رنگ میں بھنگ' ڈال دی۔ انضمام نے بھارت کے اسپن گیندباز انیل کمبلے کو بھی بھارت کے بدقسمت کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

ویسٹ انڈیز کے عظیم بلے باز برائن لارا کا ذکر کرتے ہوئے انضمام اپنے خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں کہ "محدود اوورز سے لے کر ٹیسٹ کرکٹ تک جب بھی کوئی ورلڈ الیون بنے گی اس میں برائن لارا ضرور شامل ہوں گے۔ بلاشبہ وہ ایک فاتح کھلاڑی تھے اور میں نے ان سے بہتر بائیں ہاتھ کا بلے باز نہیں دیکھا۔ 1996ء لارا کے لیے بہترین موقع تھا لیکن ویسٹ انڈیز فاتحانہ پوزیشن میں ہونے کے باوجود سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے ہار گیا۔ اس شکست کے ساتھ ہی کرٹلی ایمبروز کو میسر موقع بھی ضائع ہوگیا جو اپنے زمانے میں دنیا کے بھر کے بیٹسمینوں کے لیے خوف کی علامت تھے۔"

آج بھی جونٹی رہوڈز کے ہاتھوں اپنا رن آؤٹ دیکھتا ہوں تو ہنسی آ جاتی ہے
آج بھی جونٹی رہوڈز کے ہاتھوں اپنا رن آؤٹ دیکھتا ہوں تو ہنسی آ جاتی ہے

جنوبی افریقہ کے عظیم آل راؤنڈر ژاک کیلس کے بارے میں انضمام کہتے ہیں کہ "میں نے گیری سوبرز کے لیے بارے میں بہت سن رکھا ہے لیکن ژاک کیلس ان کے پائے کے کھلاڑی تھے۔ سچن تنڈولکر کے بعد سب سے زیادہ رنز بنانا اور 145 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے زیادہ گیندیں پھینکنا انہی کا کمال تھا۔ 1999ء اور 2007ء ان کے لیے عالمی کپ جیتنے کا بہترین موقع تھا لیکن دونوں بار جنوبی افریقہ ناکام ہوا۔"

1992ء میں بارش کا متنازع قانون اور 1999ء میں اسٹیو واہ کا کیچ چھوڑنا اور پھر سیمی فائنل کا ٹائی ہوجانا جنوبی افریقہ کے دو اور عظیم کھلاڑیوں کو عالمی کپ سے محروم کرگیا، ان میں پہلے ایلن ڈونلڈ تھے، جن کی تیز رفتار گیندوں نے جنوبی افریقہ کو کئی فتوحات سے نوازا لیکن وہ کبھی عالمی کپ نہ اٹھا سکے۔ اسی طرح ان کے ہم وطن جونٹی رہوڈز ،اپنی فیلڈنگ کی وجہ سے معروف تھے۔ 30 سے 40 رنز تو وہ محض اپنی فیلڈنگ کے ذریعے ہی بچا لیتے تھے۔ "آج بھی 1992ء کے عالمی کپ میں ان کے ہاتھوں اپنا رن آؤٹ دیکھتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ وہ اپنی شاندار فیلڈنگ کے ذریعے ہی پوری ٹیم کو اٹھانے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن کبھی عالمی کپ نہ جیت سکے۔"

مارٹن کرو کو اپنے پسندیدہ ترین کھلاڑیوں میں ایک گردانتے ہوئے انضمام نے لکھا کہ بیک وقت تیز اور اسپن باؤلنگ کے لیے اتنا کارگر بیٹسمین میں نے نہیں دیکھا۔ "1992ء کے سیمی فائنل میں ان کی شاندار کارکردگی نیوزی لینڈ کو اپنے پہلے عالمی اعزاز کے کافی قریب لے آئی لیکن میں درست وقت پر چل پڑا اور نیوزی لینڈ کے شاندار سفر کا خاتمہ ہوگیا۔"

1992ء کے عالمی کپ فائنل میں پاکستان کے مقابل انگلستان کے اہم کھلاڑی این بوتھم کو بھی انضمام نے ان بدقسمت کھلاڑیوں میں شامل کیا ہے جو کبھی عالمی کپ نہ اٹھا سکے۔ انہوں نے کہا کہ "ہماری خوش قسمتی تھی کہ 92ء کے فائنل میں ہم نے ان کو جلد آؤٹ کردیا، ورنہ وہ مقابلے کو ہماری گرفت سے باہر لےجاتے۔" پھر بھی انضمام نے 1983ء کے فائنل کو بوتھم کے لیے بہترین موقع قرار دیا کیونکہ اس وقت انگلستان اپنے وقت کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل تھا۔