سلطان ایف حسین سے منیر حسین تک

1 1,088

چند ماہ قبل جب اردو کمنٹری کے بانی منیر حسین کا انتقال ہوا تو میں نے منیر صاحب پر ایک تحریر لکھتے ہوئے پی سی بی سے درخواست کی تھی کہ نصف صدی تک کھیل کے لیے عظیم خدمات انجام دینے پر نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے میڈیا باکس کو منیر حسین کے نام سے موسوم کیا جائے۔ کرکٹ کھلاڑیوں کو ملک گیر شہرت دلوانے میں منیر صاحب اور ان کے میگزین "اخبار وطن" کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے، جسے اردو زبان میں کرکٹ کے پہلے میگزین ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی نوازش کہ اس نے ہماری اس تجویز اور درخواست قبول کرتے ہوئے نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے ایک میڈیا باکس کو منیر حسین کے نام سے موسوم کرتے ہوئے اس روایت کو مزید آگے بڑھایا ہے جس پر ماضی میں بھی بورڈ عمل پیرا رہا ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ پی سی بی منیر صاحب کی زندگی میں ہی نیشنل اسٹیڈیم کے پریس باکس کو ان سے موسوم کردیتا، خیر دیر آید، درست آید! (تصویر: PCB)
کیا ہی اچھا ہوتا کہ پی سی بی منیر صاحب کی زندگی میں ہی نیشنل اسٹیڈیم کے پریس باکس کو ان سے موسوم کردیتا، خیر دیر آید، درست آید! (تصویر: PCB)

صحافت کی دنیا کے عظیم ناموں کو سراہنا اور تعظیم دینا پی سی بی کی ایک پرانی ریت ہے ۔8 دسمبر 2006ء کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے قذافی اسٹیڈیم لاہور کے میڈیا باکس کو معروف صحافی سلطان ایف حسین کے نام سے موسوم کیا تھا، جنہیں پاکستان میں کرکٹ پر لکھنے والے صحافیوں کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے صرف کرکٹ پر ہی نہیں بلکہ دیگر کھیلوں پر بھی تحریر کے ذریعے اپنا سکہ جمایا جبکہ سلطان صاحب نے پاکستا ن کا پہلا اسپورٹس میگزین بھی 1956ء میں ’’اسپورٹس ٹائمز‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔غیر ملکی اخبارات کے لیے بھی کام کرنے والے سلطان ایف حسین نے 1974ء میں ماڈل ٹاؤن میں کرکٹ سینٹر کلب کی بنیاد ڈالی اور یہ وہی کلب ہے جہاں سے پاکستان کرکٹ کو اکمل برادران کی شکل میں تین ٹیسٹ کرکٹرز بھی میسر آئے ۔ سلطان صاحب کے نام سے موسوم یہ قذافی اسٹیڈیم کا وہی پریس باکس ہے جہاں ٹی20ٹورنامنٹس کے دوران صحافیوں کی اکثریت میچز کی کوریج کی بجائے گپیں ہانکنے اور ڈنر پر ہاتھ صاف کرنے کی منتظر رہتی ہے جبکہ سلطان صاحب کی اعلیٰ صحافتی اقدار بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔

بہرحال، سلطان صاحب نے اگر لاہور میں رہ اسپورٹس کی صحافت میں اپنا نام بنایا تو دوسری طرف کراچی میں منیر حسین کی شخصیت بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی جو اردو کمنٹری کے بانی بھی ہیں اور اردو زبان میں کرکٹ کے موضوع پر شائع ہونے والے پہلے میگزین کے مدیر بھی۔ منیر حسین چند ماہ قبل اس جہان فانی رخصت ہوچکے ہیں جن کی کھیل کے لیے خدمات کا تذکرہ کیا جائے تو منیر صاحب کے کارناموں کو ایک کالم میں سمونا مشکل ہیں نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ منیر حسین کے کارنامے اپنی جگہ تسلیم شدہ ہیں لیکن پی سی بی کی عبوری کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے نیشنل اسٹیڈیم کے پریس باکس کو منیر حسین سے موسوم کرکے ایک قابل تقلید قدم اٹھایا ہے، جس کو صحافتی برادری کی جانب سے پذیرائی بھی ملے گی۔ اس کے لیے میں پی سی بی کے سربراہ کا شکرگزار ہوں جنہوں نے میری تجویز کو شرف قبولیت بخشا ۔

اس اعلان کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم زندہ لوگوں کی قدر کرنا بھول چکے ہیں بلکہ انہیں سراہنے کے لیے، اعزازات سے نوازنے کے لیے ان کی موت کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ہمارے کئی فنکار و گلوکار ستائش کی تمنا لیے ہی اس جہان سے کوچ کرگئے لیکن ان کے اعزازات میں تقاریب میں شرکت اور اعزازات کی وصولی ان کی اولاد ہی نے کی۔ منیر صاحب ایک طویل عرصے سے بیمار تھے مگر اس عرصے میںپاکستان کرکٹ بورڈ تو کجا کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن تک نے ان کی خدمات کے اعتراف میں کسی تقریب کا اہتمام نہ کیا اور نہ ہی کسی میدان کا پویلین تک ان سے موسوم کیا گیا۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ پی سی بی منیر صاحب کی زندگی میں ہی نیشنل اسٹیڈیم کے پریس باکس کو ان سے موسوم کردیتا ۔ خیر، میں اب بھی سلطان ایف حسین اور منیر حسین کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ انہیں زندگی کی دہلیز پار کرنے کے بعد حکومتی ادارے(پی سی بی) کی طرف سے یہ اعزاز مل گیا جن پر ا ن کی اولاد فخر کرسکتی ہے ورنہ اس ملک میں ایسی کئی ہستیاں کسمپرسی کی حالت میں موت کی آغوش میں چلی گئیں کہ ہمسایوں کو بھی خبر ہوئی اور نہ ہی کسی نے بعد میں یاد کیا۔