بیئرسٹو نے میدان مارلیا، انگلستان سیریز لے اڑا

2 1,055

انگلستان اور نیوزی لینڈ کے مابین ایک روزہ سیریز جتنے دلچسپ مراحل سے گزری، تو اس کا منطقی انجام بھی اتنا ہی شاندار ہونا چاہیے تھا اور ریورسائیڈ گراؤنڈ میں ایسا ہی ہوا۔ ایک زبردست معرکہ آرائی کے بعد انگلستان نے ڈک ورتھ-لوئس طریقے کے تحت 3 وکٹوں سے کامیابی حاصل کرلی اور یوں سیریز تین-دو سے جیت لی۔ اس تاریخی کامیابی میں ایک ایسے کھلاڑی نے مرکزی کردار ادا کیا،جو ڈیڑھ سال بعد قومی ٹیم میں واپس آیا تھا۔ وکٹ کیپر جوس بٹلر کے زخمی کے بعد جانی بیئرسٹو کو جیسے ہی طلب کیا گیا انہوں نے ایک انتہائی مشکل مرحلے پر 80 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل اپنی واپسی کا اعلان کیا۔

بارش سے متاثرہ مقابلے میں نیوزی لینڈ کے 283 رنز کے جواب میں انگلستان کو صرف 26 اوورز میں 192 رنز کا مشکل ہدف ملا۔ یہ ہدف اس وقت تک ناممکنات کی سرحدوں مین داخل ہوگیا تھا جب انگلستان صرف 45 رنز پر اپنے پانچ بلے بازوں سے محروم ہوگیا تھا۔ اِن فارم جو روٹ اور کپتان ایون مورگن بھی آؤٹ ہونے والے بلے بازوں میں شامل تھے۔ جب کوئی امید بر نہیں آ رہی تھی، کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی تو بیئرسٹو آئے اور میدان مار کر ہی دم لیا۔

بیئرسٹو نے پہلے سیم بلنگز کے ساتھ صرف 57 گیندوں پر 80 رنز کی شراکت داری جوڑی اور یوں میزبان کے امکانات کو زندہ کیا۔ انگلستان مقابلے میں واپس آ چکا تھا لیکن منزل ابھی فاصلے پر تھی۔ یہاں عادل رشید نے بیئرسٹو کا ساتھ دیا اور دونوں کی 54 رنز کی ناقابل شکست رفاقت نے 25 ویں اوور میں ہی مقابلے کا خاتمہ کردیا۔

بلنگز 30 گیندوں پر 41 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے جبکہ بیئرسٹو نے 60 گیندوں پر 11 چوکوں کی مدد سے 83 رنز بنائے۔ انگلستان کو آخری دو اوورز میں 17 رنز کی ضرورت تھی، جب بیئرسٹو نے اوور کا آغاز ہی دو کرارے چوکوں کے ساتھ کیا۔ آخری گیندپر وہ فاتحانہ رنز دوڑے اور یوں میدان اور انگلستان کے ڈریسنگ روم کے لیے جشن کا زبردست موقع فراہم کردیا۔

بیئرسٹو قسمت کے بھی دھنی تھے۔ نصف سنچری سے قبل اور بعد میں انہیں دو زندگیاں ملیں، پہلے جب نیوزی لینڈ کے وکٹ کیپر لیوک رونکی نے ان کا کیچ چھوڑا اور کچھ دیر بعد مچل مچل سینٹنر نے بھی انہیں ایک موقع دیا۔ اس کا بیئرسٹو نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔

قبل ازیں انگلستان نے ٹاس جیتا اور پہلے گیندبازی کا فیصلہ کیا۔ پہلے ہی اوور میں برینڈن میک کولم کی وکٹ حاصل کرنے کے بعد یہ فیصلہ بالکل درست دکھائی دے رہا تھا لیکن مارٹن گپٹل اور کین ولیم سن کی 94 رنز کی شراکت داری نے انگلستان کو مزید فائدہ نہ اٹھانے دیا۔ ولیم سن اپنی نصف سنچری کی تکمیل ہوتے ہی بین اسٹوکس کی وکٹ بن گئے۔ جبکہ 150 رنز کے پڑاؤ پر پہنچتے ہی گپٹل بھی انہی کا نشانہ بنے۔ گپٹل نے 73 گیندوں پر 67 رنز بنائے۔

ابتدائی 30 اوورز میں 150 رنز بننے سے ہی ظاہر ہوگیا کہ یہ کوئی 400 یا 350 رنز والا 'ہائی-اسکورنگ مقابلہ' نہیں ہوگا۔ البتہ آخر میں بین ویلر کی تیز رفتار اننگز نے معاملے کو 283 رنز تک تو پہنچا ہی دیا۔ یعنی نیوزی لینڈ نے آخری 10 اوورز میں 77 رنز کا اضافہ کیا۔ جس میں آخری اوور میں اسٹیون فن کو لگائے گئے تین چھکے بھی شامل تے جن میں سے ویلر نے آخری دو گیندوں پر دو چھکے رسید کیے۔ بعد میں بارش نے نیوزی لینڈ کے لیے مزید آسانی پیدا کردی کیونکہ انگلستان کو 284 رنز کا نسبتاً آسان ہدف ملنے کے بجائے صرف 26 اوورز میں 192 رنز کا پہاڑ ملا، جو اس نے بیئرسٹو کی شاندار کارکردگی اور نیوزی لینڈ کے فیلڈرز کی نااہلی کے سبب حاصل کرلیا۔

ویسے نیوزی لینڈ کی حالیہ ایک روزہ کارکردگی دیکھیں اور پھر انگلستان کی جانب نظر دوڑائیں تو ناقابل یقین سا محسوس ہوتا ہے کہ انگلستان نے عالمی کپ کا فائنل کھیلنے والی ٹیم کو چت کردیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سیریز انگلستان کی زوال پذیر کرکٹ کے لیے ایک نیاآغاز ثابت ہو۔ بہرحال، جانی بیئرسٹو کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا جبکہ نیوزی لینڈ کے کین ولیم سن سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

اب سیریز میں محض ایک مقابلہ باقی ہے جو 23 جون کو مانچسٹر میں واحد ٹی ٹوئنٹی کی صورت میں کھیلا جائے گا۔