بھارت پر "گھر کے شیر" کی چھاپ مزید گہری

4 1,005

جب 2011ء میں بھارت عالمی نمبر ایک کی حیثیت سے سرزمین انگلستان پر پہنچا تھا تو دنیائے کرکٹ کو سخت ترین مقابلے کی توقع تھی۔ بھارت کو سچن تنڈولکر، وریندر سہواگ، راہول ڈریوڈ اور وی وی ایس لکشمن جیسے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل تھیں لیکن ۔۔۔۔۔ انگلستان نے چارو ں ٹیسٹ میچز میں بھارت کو بری طرح شکست دی اور آج دو سال گزر جانے کے بعد بھی ان حالات میں کوئی فرق نہیں آیا اور بھارت انگلستان کے خلاف پانچ مقابلوں کی سیریز تین-ایک سے ہار گیا۔

بھارت کی بیٹنگ اور باؤلنگ میں بدترین کارکردگی کی جو کسر رہ گئی تھی وہ مایوس کن فیلڈنگ نے پوری کردی (تصویر: AP)
بھارت کی بیٹنگ اور باؤلنگ میں بدترین کارکردگی کی جو کسر رہ گئی تھی وہ مایوس کن فیلڈنگ نے پوری کردی (تصویر: AP)

گو کہ اِس مرتبہ بھارت نے آغاز بہت زبردست لیا تھا۔ ٹرینٹ برج میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے مکمل ہوا تو بھارت نے لارڈز میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میں 95 رنز کی فتح حاصل کی اور سیریز میں ایک-صفر کی برتری حاصل کرلی لیکن لارڈز ٹیسٹ کے دوران ہی ایک تنازع نے سر اٹھایا اور بھارت کی توجہ مقابلوں پر سے ہٹ گئی۔ بھارت نے انگلستان کے تیز باؤلر جیمز اینڈرسن کے خلاف آئی سی سی کے روبرو شکایت درج کروائی کہ پہلے ٹیسٹ کے دوران انہوں نے بھارتی بیٹسمین رویندر جدیجا کے ساتھ بدکلامی کی اور بعد ازاں انہیں دھکا بھی دیا۔ اینڈرسن کو آئی سی سی کے ضابطہ اخلاق کے لیول3 کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا گیا جس کی زیادہ سے زیادہ سزا 4 ٹیسٹ میچز پر پابندی بھی ہوسکتی تھی۔ اس معاملے نے اتنا طول پکڑا کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے پہلے شکایت پر حیرانگی کا اظہار کیا اور پھر جدیجا کے خلاف لیول1 کی خلاف ورزی کی جوابی شکایت درج کروائی۔

معاملہ تو گھسٹتا گھسٹتا بالآخر ایسے نتیجے تک پہنچا جو ہرگز بھارت کو منظور نہیں تھا۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے مقرر کردہ پینل نے اینڈرسن اور جدیجا دونوں کو بے قصور قرار دیتے ہوئے قضیہ کو نمٹا دیا۔ لیکن اس پورے تنازع میں بھارت کی توجہ بجائے کھیل پر ہونے کے مکمل طور پر باہر کے ان جھگڑوں پر رہی۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے شکایت معاملے میں پہل کی بلکہ اینڈرسن پر لیول3 کی خلاف ورزی کا سنگین الزام بھی لگایا۔ نہ صرف یہ بلکہ جب تحقیقات میں جمی بے قصور ثابت ہوئے اور بھارت کو اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا تو بھارتی کرکٹ بورڈ نے آخری حد تک جاتے ہوئے آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ رچرڈسن سے رابطہ کیا اور ان سے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا مطالبہ کیا، جو منظور تو نہ ہوا لیکن ان کے رونے دھونے سے صاف ظاہر ہوگیا کہ اب بھارت باقی مقابلے جیت نہیں سکتا۔

اس تنازع سے بھارت کی کارکردگی پر پڑنے والے اثرات ساؤتھمپٹن ہی میں ظاہر ہونا شروع ہوگئے، جہاں بھارت دوسری اننگز میں صرف 178رنز پر ڈھیر ہوکر مقابلہ ہار گیا اور پھر بیٹنگ کرنا بھول گیا۔ مانچسٹر میں صرف 152اور 161 اور اوول میں 148 اور 94 رنز اور بدترین شکستیں۔ رہی سہی کسر فیلڈنگ نے پوری کردی۔ ساؤتھمپٹن میں سلپ میں رویندر جدیجا کی جانب سے آؤٹ آف فارم ایلسٹر کک کا کیچ ڈراپ کرنا ہی وہ مرحلہ ثابت ہوا جہاں سے سیریز انگلستان کے حق میں جھکتی چلی گئی۔ انگلستان کی کمزور ترین کڑی اس کے بعد اعتماد کے ساتھ مضبوط ہوتی چلی گئی۔ کک نے پہلی اننگز میں 95 اور دوسری میں 70 رنز بناڈالے اور پھر کوئی انگلستان کو روک نہ پایا۔

وہ انگلستا ن جو طویل عرصے سے فتوحات کے لیے ترس رہا تھا، حتیٰ کہ بھارت سے قبل سری لنکا کے ہاتھوں بھی اپنے میدانوں پر تاریخ کی پہلی سیریز شکست سے دوچار ہوا تھا، سیریز میں ایک-صفر سے خسارے میں جانے کے باوجود جیت گیا۔

اس سیریز نے بھارت پر 'گھر کے شیر' کی چھاپ مزید گہری کردی ہے جو رواں سال آسٹریلیا، انگلستان اور جنوبی افریقہ تو کجا رواں سال کے اوائل میں نیوزی لینڈ تک کے دورے میں شکست کھا چکا ہے۔ اب چند ماہ بعد ایک مرتبہ پھر اپنے میدانوں پر ویسٹ انڈیز جیسے کمزور حریف پر ہاتھ صاف کرے گا۔