ہنددستانی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ، فلیچر کیلئے ایک سخت چیلنج

2 1,060

تحریر: سلمان غنی، پٹنہ، بھارت

ڈنکن فلیچر کا ہندستانی کرکٹ ٹیم کا کوچ مقرر کیا جانا تمام ہندستانیوں کیلئے تعجب خیز بات ہے۔ بورڈ کے اس عجیب و غریب فیصلہ کے بعد سابق کھلاڑیوں کا ملا جلا رد عمل آنے لگا ہے۔ بھارتی ٹیم کے سابق کپتان کپل دیو نے بورڈ کے اس فیصلہ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اول تو بورڈ کو چاہئے تھا کہ وہ کسی ہندستانی کو ٹیم کا کوچ مقرر کرے دوئم اگر اپنے ملک میں باصلاحیت کوچ کا فقدان تھا تو پھر کسی ایسے شخص کو یہ ذمہ داری ملنی چاہئے تھی جو یقینااس کا اہل ہو۔

بھارت کے نئے کوچ ڈنکن فلیچر، جن کی تقرری نے بھارت میں اک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے

کپل دیو نے مزید کہا ہے کہ فلیچر کے نام سے بہت کم ہی لوگ واقف ہیں۔ کپل دیو کے مطابق وینکٹیش پرساد یا رابن سنگھ کو اس عہدہ پر فائز کیا جا سکتا تھا کیونکہ ان دونوں نے 2007ء ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ میں عمدہ خدمات انجام دی تھیں۔ واضح رہے کہ اس عالمی کپ میں پرساد کو بالنگ اور رابن سنگھ کو فیلڈنگ کوچ مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن اکتوبر2009ء میں ان دونوں کو بغیر کسی عذر کے برخواست کر دیا گیا ۔ کپل دیو نے بطور کھلاڑی فلیچر کی کارکردگی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1983ء میں انکے خلاف کھیلے گئے دو میچ انہیں یاد بھی نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک میچ میں کپل دیو نے اپنا سب سے زیادہ انفرادی اسکور175 رنز بنایا تھا۔

ڈنکن فلیچر کے خلاف کھیلنے والے دو مزید ہندستانی کھلاڑی یشپال شرما اور سندیپ پاٹل نے بی سی سی آئی کے فیصلہ پر خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس فیصلہ کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے۔ 1983ء کی ہندستانی کرکٹ ٹیم کے ایک اور رکن مدن لال نے بی سی سی آئی کے فیصلہ کی تائید کی ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ڈنکن فلیچر کی سرپرستی میں ٹیم مزید مستحکم ہوگی۔ انہو ں نے یہ بھی کہا کہ فلیچر میں گیری کرسٹن والی تمام خوبیاں موجود ہیں۔

بی سی سی آئی کے اس فیصلہ کے بعد ہندستانی میڈیا پورے زور و شور کے ساتھ ڈنکن فلیچر کی اہلیت کا جائزہ لینے میدان میں اتر پڑا ہے۔2011ء عالمی کپ کی فاتح اور ٹیسٹ کی سر فہرست ٹیم کے کوچ کا انتخاب ہندستانی کرکٹ شائقین کیلئے امریکہ کے صدارتی انتخاب سے کم اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ انہیں اس بات کا انتظار تھا کہ ٹیم کا کوچ کوئی ایسا شخص مقررہو جس کا ماضی کا رکارڈ شاندار رہا ہو۔ بلکہ اکثریت کی رائے میں کسی سابق ہندستانی کھلاڑی کو ہی اس عہدہ پر فائز کیا جانا چاہئے تھا۔ لیکن بورڈ کے اس ناگہانی فیصلے نے تمام کرکٹ شائقین کو انگشت بدنداں کر دیا ہے۔

ڈنکن فلیچر نے زمبابوے کی طرف سے محض6ایک روزہ میچوں میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کی ہے۔ جبکہ انہیں ایک بھی ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا۔ جون1983ء میں آسٹریلیا کے خلاف انکے ایک روزہ بین الاقوامی کیرئیر کی شروعات ہوئی اور اسی مہینہ انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنا آخری میچ بھی کھیل لیا۔ کوچ کی حیثیت سے انہوں نے انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی ذمہ داریاں2000ء میں سنبھالیں۔2004ء تک ان کی کوچنگ میں انگلینڈ نے پاکستان، جنوبی افریقہ اورسری لنکا کے خلاف انہی کی سرزمینوں پر سیریز میں جیت حاصل کی۔2004ء میں ہی انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کو3-0 اورویسٹ انڈیز کو4-0 سے شکست دیتے ہوئے رکارڈ ساز 8 مسلسل ٹیسٹ میچوں میں فتوحات درج کیں۔

سابق بھارتی کپتان کپل دیو نے بورڈ کے اس فیصلہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے

ڈنکن فلیچر کی بطور کوچ سب سے عمدہ کارکردگی2005ء میں منظر عام پر نمایاں ہوئی ۔ ان کی سرپرستی میں انگلینڈ کرکٹ ٹیم نے 18 سالوں کے طویل وقفہ کے بعد آسٹریلیا کو 2-1 سے شکست دیتے ہوئے ایشیز اپنے نام کی۔

بطور کھلاڑی ڈنکن فلیچر کے کیریئر کو مایوس کن کہنا تو بے جا نہ ہوگا لیکن ایک کوچ کی حیثیت سے انکی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ٹیم کے فتح و شکست کے اسباب محض کوچ کی کوششوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ٹیم کی مجموعی کارکردگی کے نتیجہ پر ہی ٹیم کی کامیابی کا اصل انحصار ہوتا ہے۔

ہندستانی کرکٹ ٹیم کے کوچ کا عہدہ پوری دنیا کیلئے توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ ایک ایسی ٹیم کی ذمہ داریوں کے بار کو اٹھانا جس نے ابھی ابھی عالمی کپ میں شاندار جیت حاصل کی ہے یقینا ایک مشکل ترین کام ہوگا۔ لیکن ڈنکن فلیچر کیلئے اس سے کہیں زیادہ مشکل کام میڈیا کی تنقیدوں کا سامنا کرنا ہوگا۔

ہندستانی میڈیا کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ٹیم کے کسی رکن یا ذمہ دار کی ایک چھوٹی سی بھول پر ایسی ہنگامہ آرائی کرتے ہیں جیسے اب ٹیم میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی۔ وہیں محض ایک کامیابی پر تعریف کے پل باندھ دیے جاتے ہیں۔ ہندستانی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ ڈنکن فلیچر کیلئے ایک سخت چیلنچ ہے اور انہیں سب سے زیادہ محتاط ہندوستانی میڈیا سے رہنا ہوگا۔ بطور کوچ انگلینڈ ٹیم کیلئے انہوں نے جیسی کوششیں کی ہیں اگر انہی کوششوں کو وہ یہاں بھی بروئے کار لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقینا ڈنکن فلیچر کا شمار دنیا کے کامیاب ترین کوچوں میں ہوگا ورنہ اگر یہاں انہوں نے کوتاہی کا مظاہرہ کیا تو عجب نہیں کہ ہندستانی میڈیا انکے کوچنگ کیریئر کا جنازہ نکال کر رکھ دے۔