چوکرز...چیٹرز بھی نکلے!!

1 1,066

دبئی ٹیسٹ کے تیسرے دن جنوبی افریقہ کے فیلڈر فف دو پلیسی نے اپنے ٹراؤزر پر لگی زپ پر گيند رگڑ کر بال ٹمپرنگ کے "گڑھے مردے" اکھاڑ دیے۔ امپائروں اور کیمروں کی مدد سے پکڑی گئی اس بے ایمانی کا دائرہ صرف فف تک ہی محدود نہ تھا بلکہ تیز باؤلر ویرنن فلینڈر بھی اپنے ناخن سے گیند کھرچتے پائے گئے۔ گیند کے معائنے کے بعد امپائروں نے جنوبی افریقہ کے کپتان گریم اسمتھ کو اپنے کھلاڑیوں کے 'کرتوت' دکھائے اور جرمانے کے طور پر پاکستان کو 5 رنز سے نوازتے ہوئے گیند بھی تبدیل کردی۔ لیکن یہ معاملہ اتنا چھوٹا نہیں کہ صرف 5 رنز کے جرمانے سے ختم ہو جائے بلکہ ممکنہ طور پر گریم اسمتھ اور ان کی ٹیم کے چند اراکین کے خلاف کارروائی کا بھی امکان ہے۔

اندازہ ہوتا ہے کہ دبئی ٹیسٹ سے قبل ہی گیند سے چھیڑچھاڑ کی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان 99 پر ڈھیر ہوا (تصویر: AFP)
اندازہ ہوتا ہے کہ دبئی ٹیسٹ سے قبل ہی گیند سے چھیڑچھاڑ کی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان 99 پر ڈھیر ہوا (تصویر: AFP)

اتنی کھلی اور واضح بے ایمانی کے باوجود جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر ابراہم ڈی ولیئرز کی ڈھٹائی دیکھئے کہ وہ کہتے ہیں "ہمارے کھلاڑیوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا کیونکہ ہم دھوکے باز نہیں ہیں " وہ صرف یہی تک نہیں رکے بلکہ طنزیہ انداز میں یہ تک کہہ ڈالا کہ "ہم ان ٹیموں میں سے نہیں ہیں جو گیند کو کھرچتی رہتی ہیں"۔ ان کا واضح اشارہ 2006ء کے اوول تنازع کی جانب تھا، جب امپائروں نے پاکستانی باؤلرز پر گیند سے چھیڑچھاڑ کا الزام لگاتے ہوئے انگلستان کو جرمانے میں 5 رنز دیے تھے، جس پر انضمام الحق نے چائے کے وقفے کے بعد ٹیم کواحتجاجاً میدان میں لانے سے انکار کردیا اور امپائروں نے انگلستان کو فاتح قرار دے دیا تھا۔

دوسری جانب سوشل میڈيا پر بھی جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے سابق کھلاڑی ٹیم کی اس حرکت کا دفاع کرتے دکھائی دے رہے ہیں جیسا کہ سابق اسپنر پیٹ سمکوکس، جو ماضی کے قصے اچھال رہے ہیں۔ لیکن ماضی میں جو کچھ ہوا، اس کی سزائیں بھی کھلاڑیوں کو مل چکیں اور وہ سب قصہ پارینہ بن چکا اور ان کو اچھالنا ہرگز دبئی ٹیسٹ میں پروٹیز کھلاڑیوں کی حرکت کو نہیں چھپا سکتا۔ ایسی حرکت جو کیمرے کی آنکھ نے پکڑ بھی لی ہے۔

بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے قوانین کے مطابق ایک اننگز میں دوسری مرتبہ گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ کا شک ہونے پر امپائر بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو 5 رنز دیتا ہے لیکن دبئی ٹیسٹ میں امپائروں نے جنوبی افریقہ کو پہلی بار تنبیہ کب دی، یہ واضح نہیں ہو سکا۔پھر یہ واقعہ ہوا بھی ایسے حالات میں ہے جو معاملات کو بہت زیادہ مشکوک بنا رہے ہیں۔ابوظہبی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں 442 رنز بنانے والا پاکستان دبئی میں کہیں زیادہ سازگار ماحول میں صرف 99 رنز پر ڈھیر ہو جاتا ہےجبکہ اسی وکٹ پر جنوبی افریقہ نے 517 رنز بنائے۔ ایک بات اگر آپ کے مشاہدے میں گزری ہو کہ دبئی ٹیسٹ کے پہلے دن محض 20 اوورز بعد ہی گیند سوئنگ ہونا شروع ہو گیا تھا اور 52 رنز پر صرف 2 وکٹیں گنوانے والا پاکستان صرف 99 رنز پر پوری ٹیم سے محروم ہوگیا۔ ایسے میدان پر جو نرم و ملائم گھاس کا بھرا ہوا ہو اور گیند باؤنڈری پر لگے بورڈز پر بہت کم ہی ٹکرائی ہو، اس طرح دیوانہ وار سوئنگ ہونا اس شبے کو تقویت دیتا ہے کہ گیند سے چھیڑخانی صرف دوسری اننگز تک ہی محدود نہیں تھی کہ یہ "کارنامہ" درحقیقت پہلی اننگز میں انجام دیا گیا تھا۔

پھر ذرا جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں کی تیاریاں بھی دیکھیں۔ عام طور پر کھلاڑی زپ والے ٹراؤزر پہن کر میدان میں نہیں جاتے کیونکہ انہوں نے جیب میں ایسا کچھ نہیں رکھنا ہوتا کہ جس کی حفاظت کے لیے جیب پر زپ لگانی پڑے لیکن فف دو پلیسی کی جیب میں نجانے ایسی کون سی "قیمتی" شے تھی کہ انہیں زپ والے ٹراؤزر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقی طور پر یا انفرادی سطح پر نہیں ہوا بلکہ اس میں ٹیم انتظامیہ اور کپتان کی منصوبہ بندی بھی شامل تھی۔ پھر اس کام کے لیے فف دو پلیسی جیسے کھلاڑی کا انتخاب بھی بہت سی چیزوں کو ظاہر کر دینے کے لیے کافی ہے۔ ایسا کھلاڑی جس کی ٹیم میں جگہ محفوظ نہیں ہے، اگر چند میچز کے لیے پابندی کا نشانہ بھی بن جائے تو جنوبی افریقہ برداشت کرلے گا۔ پھر جنوبی افریقہ کے باؤلنگ کوچ ایلن ڈونلڈ کا بال ٹمپرنگ کا قانونی شکل دینے کا وہ مطالبہ بھی یاد رکھیے۔ کیا انہوں یہ مطالبہ اسی لیے کیا تھا کہ ٹیم کو ایسی کسی حرکت پر قانونی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے؟

اس پورے معاملے سے جو چیز واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ عالمی نمبر ایک ابوظہبی میں ذلت آمیز شکست کے بعد بہرصورت دبئی ٹیسٹ جیتنا چاہتا تھا، جس کے لیے اس نے بال ٹیمپرنگ جیسا حربہ بھی آزمایا۔ یعنی جو "چوکرز" کہلاتے تھے، اب "چیٹرز" بھی بن گئے!

درحقیقت صرف فف ہی نہیں بلکہ پوری جنوبی افریقی ٹیم اس بے ایمانی پر قصوروار ہے اور اس منصوبہ بندی کا حصہ۔ غلطی صرف اتنی ہوئی کہ فف نے 418 رنز کی برتری اور یقینی فتح کو سامنے دیکھنے کے باوجود یہ بے وقوفی کرڈالی اور پروٹیز کی بددیانتی بے نقاب ہوگئی ورنہ یہ سلسلہ نجانے کب سے چل رہا تھا۔