اینجلو میتھیوز- سری لنکا کا نیا مرد بحران

0 1,050

نو سال قبل 2005ء میں جب اینجلو میتھیوز سری لنکا کی جونیئر ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے انگلستان کے دورے پر تھے تو شاید انہوں نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ تقریباً ایک عشرے بعد وہ اسی سرزمین انگلستان پر ایک تاریخ رقم کررہے ہوں گے۔ مذکورہ سیریز کے لیڈز ہی میں کھیلے گئے آخری ٹیسٹ میں سری لنکا انڈر 19 کو انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کا سبب معین علی کی سنچری تھی جبکہ میتھیوز 123 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر بھی سری لنکا کو شکست سے نہ بچا سکے تھے۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ 2014ء میں لیڈز کے اسی میدان پر میتھیوز نے تاریخ کا دھارا پلٹ دیا۔ اب کی بار معین کی سنچری رائیگاں گئی، اور میتھیوز کی سنچری فتح گر قرار پائی جس کی بدولت سری لنکا کو گوروں کے خلاف انہی کے دیس میں پہلی بار ٹیسٹ سیریز جیتنے کو ملی۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں، یہ سری لنکا کی تاریخ کے عظیم ترین کپتانوں میں شمار ہونے کی جانب میتھیوز کے سفر کا اہم سنگ میل ہے۔

اینجلو میتھیوز نے اسی میدان پر ایک پرانی شکست کا بدلہ چکا دیا، 9 سال کے بعد (تصویر: PA Photos)
اینجلو میتھیوز نے اسی میدان پر ایک پرانی شکست کا بدلہ چکا دیا، 9 سال کے بعد (تصویر: PA Photos)

اینجلو میتھیوز سری لنکا کی جونیئر کرکٹ کی پروڈکٹ ہے، جسے کم عمری سے ہی کپتانی کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔ میتھیوز کےساتھ ساتھ فرویز مہاروف بھی سری لنکن کرکٹ کے ریڈار میں تھا، جو مستقبل کا کپتان ثابت ہوسکتا تھا لیکن مہاروف کی فارم خراب ہوئی تو سری لنکا نے تمام تر توقعات میتھیوز سے باندھ لیں۔ گزشتہ برس مارچ میں جب میتھیوز کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سونپی گئی تو بہت سے ماہرین نے اسے قبل از وقت فیصلہ قرار دیا تھا کہ اوسط درجے کی بیٹنگ پرفارمنس کا حامل میتھیوز ٹیسٹ کرکٹ میں بہت کم باؤلنگ کرتا ہے، اس لیے کپتانی کے لیے اس کا انتخاب درست نہیں ہے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ میتھیوز کو منتخب کرنا بالکل درست ہے۔ رواں سال پے در پے کامیابیوں کے بعد انہوں نے کرکٹ سری لنکا کی اس پریشانی کو خاصی حد تک دور کردیا ہے کہ مہیلا جے وردھنے اور کمار سنگاکارا قومی کرکٹ کو کون سا کھلاڑی لے کر چلے گا۔ میتھیوز نے نہ صرف قیادت کے بحران کا خاتمہ کردیا ہے بلکہ دورۂ انگلینڈ میں اپنی ذمہ دارانہ بیٹنگ سے خود کو ان دونوں عظیم بلے بازوں کا حقیقی جانشیں بھی ثابت کردیا ہے۔

قیادت سنبھالنے سے پہلے اینجلو میتھیوز کا شمار سری لنکا کے نوجوان کھلاڑیوں میں ہوتا تھا، جنہیں ایک طرح سے سری لنکا کا مستقبل سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن ٹیسٹ کیریئر کے ابتدائی عرصے میں ان کی کارکردگی بالکل ایسی نہ تھی کہ جس کا موازنہ سنگا یا مہیلا کے ابتدائی دنوں سے کیا جاسکتا۔ کپتان بننے سے پہلے میتھیوز نے 31 ٹیسٹ کھیلے اور صرف ایک سنچری بنائی جبکہ 70 سے زائد کے اوسط سے صرف 11 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ کارکردگی انہیں ایک اچھا آل راؤنڈر ثابت نہیں کررہی تھی لیکن کپتانی سنبھالنے کے بعدمیتھیوز کا کھیل بالکل ہی بدل گیا۔ وہ صرف 9 ٹیسٹ مقابلں میں تین سنچریوں کی مدد سے 78 سے زائد اوسط کے ساتھ رنز بنا چکے ہیں۔

بحیثیت کپتان بنگلہ دیش کے خلاف جیتنے کے بعد میتھیوز کا پہلا بڑا امتحان پاکستان سے سیریز تھی۔ جس میں میتھیوز نے دبئی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں 179 رنز کے خسارے کے باوجود 157 رنز کی ناقابل شکست و کیریئر کی بہترین اننگز کھیلی اور سری لنکا کو یقینی شکست سے بچایا۔ اس میچ کی پہلی اننگز میں بھی انہوں نے شاندار 91 رنز بنائے تھے اور سیریز کے آخری ٹیسٹ میں بھی 91 ہی رنز کی اننگز کھیل کر سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔

اب انگلستان کے خلاف دو ٹیسٹ مقابلوں میں میتھیوز کی دو سنچریوں نے نہ صرف سری لنکا کو تاریخی کامیاب دلوائی بلکہ وہ سیریز کے بہترین کھلاڑی بھی قرار پائے۔ میتھیوز اپنے ٹیسٹ کیریئر میں صرف دو مرتبہ میچ کے بہترین کھلاڑی بنے اور دونوں ہی مرتبہ یہ کارنامہ کپتان کی حیثیت سے انجام دیا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ انہی دونوں سیریز میں وہ سیریز کے بہترین کھلاڑی بھی قرار دیے گئے۔

میتھیوز نے اب تو اپنے بارے میں جارح مزاج اور اپنی وکٹ کی حفاظت نہ کرپانے والے بے پروا قسم کے بلے باز کی حیثیت سے تاثر کا خاتمہ ہی کردیا اور اب سری لنکا کی بیٹنگ لائن میں ان سے بہتر بلے باز نہیں دکھائی دیتا۔ اب جبکہ 2014ء میں ہر طرز کی کرکٹ میں سری لنکا کامیابیاں سمیٹ رہا ہے تو یقیناً جے وردھنے اور سنگاکارا کے لیے مستقبل قریب میں ریٹائرمنٹ کا فیصلہ زیادہ پریشان کن نہیں ہوگا۔ انہی کی موجودگی میں ٹیم سری لنکا میتھیوز کی قایدت میں بلندیوں کی جانب گامزن ہے اور خود میتھیوز بھی عظمت کے رستے پر چل پڑے ہیں۔