بنگلہ دیش ناقابل شکست ٹھیرا، پاکستان زوال کی نئی انتہا پر

4 1,139

جس کا خدشہ ذہن کے نہاں خانوں میں بھی نہ تھا، بالآخر وہی ہوا اور پاکستان بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ سیریز کے تمام مقابلوں میں ہی شکست سے دوچار ہوا۔ جس مقابلے میں پاکستان ابتدائی تقریباً 40 اوورز تک حاوی رہا، وہاں بعد میں یہ عالم دکھائی دیا کہ بنگلہ دیش صرف دو وکٹوں کے نقصان پر باآسانی 40 ویں اوور میں ہدف تک جا پہنچا اور یوں ایک اور مقابلہ انتہائی یکطرفہ انداز میں جیت کر نئی تاریخ رقم کردی۔

پاکستان نے آغاز تو بہت عمدہ لیا، کپتان اظہر علی کی سنچری اور حارث سہیل اور سمیع اسلم کی عمدہ اننگز نے ٹیم کو بہترین بنیاد فراہم کی۔ پاکستان صرف دو وکٹوں پر ہی 200 رنز کا ہندسہ عبور کرچکا تھا اور 10 سے زیادہ اوورز کا کھیل ابھی باقی تھا لیکن "پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی"۔ مڈل آرڈر بلے بازی نے خوب دھوکا دیا اور پاکستان صرف 47 رنز کے اضافےسے اپنی آخری 8 وکٹوں سے محروم ہوگیا۔ پاکستان کی اننگز جو آغاز میں 300 رنز تک پہنچتی دکھائی دیتی تھی، محض 250 رنز پر محدود ہوگئی۔

اظہر علی نے ایک مرتبہ پھر ٹاس جیتا، پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے آج کے مقابلے کے لیے دستے میں تین تبدیلیاں کی تھیں۔ سعید اجمل، راحت علی اور سرفراز احمد کی جگہ ذوالفقار بابر، عمر گل اور سمیع اسلم کو موقع دیا گیا تھا ۔ سمیع اسلم نے کپتان کے ساتھ 91 رنز کی افتتاحی شراکت داری کے ذریعے اپنی اہلیت ثابت کردی۔ انہوں نے 50 گیندوں پر 45 رنز کی ایک عمدہ اننگز کھیلی ، جس میں 7 چوکے بھی شامل تھے لیکن بدقسمتی سے ناصر حسین کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے دھر لیے گئے۔ پورے دورے میں ناکامی کا منہ دیکھنے والے محمد حفیظ کے لیے آج کارکردگی پیش کرنا بہت ضروری تھا۔ رن آؤٹ ہونے سے بال بال بچے لیکن کچھ ہی دیر میں خود اپنے ہاتھوں سے وکٹ دے گئے۔ عرفات سنی کی گیند کو آگے بڑھ کر میدان بدر کرنے کی کوشش کی لیکن گیند وکٹوں میں جا ٹھیری۔ یوں حفیظ کا دورۂ بنگلہ دیش تین مقابلوں میں محض 8 رنز کے ساتھ مکمل ہوا۔

اس مرحلے پر حارث سہیل اظہر علی کے ساتھ دینے کے لیے میدان میں اترے اور دونوں نے تیسری وکٹ پر 98 رنز کی شراکت داری جوڑ کر پاکستان کو بالادست مقام پر پہنچا دیا۔ بیٹنگ پاور پلے کے دوران جب پاکستان 203 رنز تک پہنچ چکا تھا تو واضح طور پر دکھائی دیتا تھا کہ ٹیم کی نظریں 300 رنز پر ہیں۔ بنگلہ دیش کے کھلاڑی بھی پریشان دکھائی دیتے تھے لیکن عین اسی وقت شکیب نے دن کی سب سے بڑی وکٹ حاصل کرلی۔ اظہر علی اپنی پہلی ایک روزہ سنچری بنانے کے چند ہی لمحوں بعد تاخیر سے کٹ کھیلنا چاہتے تھے لیکن گیند کی سمت کھو بیٹھے جو آف اسٹمپ کے بالائی حصے سے جا ٹکرائی اور یوں اظہر کی اننگز اپنے اختتام کو پہنچی۔

اظہر علی نے 112 گیندوں پر 10 چوکوں کی مدد سے 101 رنز بنائے جو پانچ سال کے طویل عرصے کے بعد کسی پاکستانی کپتان کی پہلی ایک روزہ سنچری تھی۔ مصباح الحق جو 87 مقابلوں اور کئی سالوں تک یہ اعزاز حاصل کرنے سے محروم رہے، اظہر نے محض تیسرے ایک روزہ میں حاصل کرلیا اور اس کا خوب جشن بھی منایا۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ جو بنیاد وہ دے کر جا رہے ہیں، آنے والے بلے باز اس کا بالکل بھی فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔ اگلے ہی اوور میں حارث سہیل وکٹ دے گئے، اسی طرح جیسے وہ ہمیشہ دیتے ہیں،آف اسٹمپ پر آگے پڑی ہوئی گیند کو لیگ سائیڈ کی جانب سے کھیلنے کی کوشش اور گیند کو فضا میں تنا دینا۔ اس مرتبہ ان کا کیچ وکٹ کیپر مشفق الرحیم نے پکڑا اور پاکستان بیٹنگ پاور پلے کے آخری اوور میں اپنے دونوں سیٹ بلے بازوں سے محروم ہوگیا۔ حارث نے 58 گیندوں پر 52 رنز بنائے جس میں ایک چوکا اور پاکستانی اننگز کے دونوں چھکے شامل تھے۔

بہرحال، بازی ابھی ہاتھ سے نکلی نہیں تھی۔ آنے والے بلے بازوں کے پاس 10 سے زیادہ اوورز تھے لیکن شاید دماغ کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ پہلے محمد رضوان شکیب کی گیند پر انہی کو کیچ دے گئے، کچھ دیر میں فواد عالم بھی 4 رنز کے "جادوئی ہندسے" کا شکار ہوئے۔ جس طرح حفیظ اور رضوان 4 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، اسی طرح وہ بھی یہاں تک پہنچتے پہنچتے ہمت ہار گئے۔ پچھلے مقابلے میں نصف سنچری بنانے والے وہاب ریاض ایک چوکے کے فوراً دوسرا حاصل کرنے کی لاحاصل کوشش میں مڈ آف پر دھر لیے گئے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ عمر گل کے رن آؤٹ نے پوری کردی جو ٹیم میں واپس آتے ہی صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ اگلے ہی اوور میں سعد نسیم کی صورت میں امید کا آخری چراغ گل ہوا۔ جنہوں نے 22 رنز بنائے اور پھر 49 ویں اوور کی آخری گیند پر جنید خان کا "ریورس سویپ" پاکستان کی اننگز کا خاتمہ کرگیا۔ کہاں 203 رنز پر دو کھلاڑی آؤٹ اور کہاں 250 رنز پر آل آؤٹ، یہ ہے کرکٹ پاکستان کی داستان، جہاں کچھ بھی ناممکن نہیں۔

بنگلہ دیش نے پاکستان کی ابتدائی عمدہ بلے بازی کو دیکھتے ہوئے آٹھ گیندباز آزمائے، جن میں سے پانچ نے وکٹیں حاصل کیں۔ کپتان مشرفی مرتضیٰ، روبیل حسین، عرفات سنی اور شکیب الحسن نے دو، دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ایک وکٹ ناصر حسین کو ملی۔

ذوالفقار بابر اور عمر گل کی آمد اور محمد حفیظ کے باؤلنگ ایکشن پر پابندی کے خاتمے کے بعد آج پاکستان کا باؤلنگ اٹیک مکمل تھا اور توقع تھی کہ آج کچھ جم کر مقابلہ ہوگا۔ لیکن سب امکانات اور توقعات دھری کی دھری رہ گئیں جب بنگلہ دیشی اوپنرز نے نصف اننگز نے پاکستان کو ایک وکٹ بھی نہ لینے دی۔ تمیم اقبال اور سومیا سرکار نے 145 رنز کی شاندار رفاقت قائم کی۔ جس میں کچھ حصہ پاکستان کی "عظیم" فیلڈنگ کا بھی تھا۔ پہلے تو سرفراز احمد کی جگہ وکٹ کیپنگ سنبھالنے والے محمد رضوان نے سرکار کا کیچ چھوڑا، جب وہ 48 رنز پر کھیل رہے تھے۔ سرکار نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنی پہلی ایک روزہ سنچری مکمل کی۔ البتہ دوسرے کنارے پر کھڑے تمیم اقبال مسلسل تیسری سنچری نہ بنا پائے۔ انہوں نے 76 گیندوں پر 64 رنز بنائے اور جنید خان کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ جنید نے اگلے ہی اوور میں محمود اللہ کو بھی بولڈ کردیا۔

پاکستان مقابلے میں واپس آ سکتا تھا، اگر غیر معمولی باؤلنگ اور فیلڈنگ کی جاتی، لیکن یہاں تو معمولی بھی نہیں دکھائی دی۔ جنید خان نے سرکار کا ایک اور آسان کیچ چھوڑا، رن آؤٹ کے ایک، دو مواقع ضائع کیے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش نے 40 ویں اوور ہی میں ہدف کو جا لیا۔ سرکار 110 گیندوں پر 127 رنز پر ناقابل شکست رہے جبکہ مشفق نے 49 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز کھیلی۔ ان دونوں کے درمیان 97 رنز کی شراکت داری قائم ہوئی۔

پاکستان کی طرف سے گیندبازی میں تقریباً سبھی ناکام دکھائی دیے۔ حفیظ نے ابتداء میں رنز کی رفتار پر کچھ بند ضرور باندھا اور یہی وجہ ہے کہ 8 اوورز میں 37 رنز ہی دیے لیکن انہیں جس مقصد کے لیے ابتداء ہی سے باؤلنگ تھمائی گئی، وہ اس میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیے۔ یعنی بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے تمیم اور سرکار کی وکٹ۔ جو نہ حفیظ حاصل کرسکے اور نہ ہی 25 اوورز تک کوئی اور "مائی کا لعل"۔ عمر گل نے عرصے بعد ٹیم میں واپسی کی اور 7 اوورز میں 53 رنز کھائے۔ وہاب ریاض نے 6 اوورز میں 30 رنز دیے اور ذوالفقار بابر نے 10 اوورز میں 56 رنز کی مار سہی۔ وکٹیں صرف جنید خان کو ملیں، جنہوں نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا لیکن 7.3 اوورز میں 67 رنز کھائے، یعنی سب سے زیادہ۔

بنگلہ دیش 16 سال تک پاکستان کے خلاف کوئی ایک مقابلہ جیتنے کو ترستا رہا، لیکن جب دینے والا دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے۔ بنگلہ دیش نے ایک ہی ہفتے میں تین مقابلے جیتے لیے، وہ بھی مکمل غلبے کے ساتھ۔ پہلے 329 رنز بنانے کے بعد 79 رنز سے کامیابی حاصل کی، پھر 240 رنز کا ہدف 39 ویں اوور میں صرف 3 وکٹوں پر عبور کیا اور اب آخری مقابلے میں 251 رنز محض دو وکٹوں پر ہی 40 ویں اوور میں بنالیے۔

گیندباز چلے نہیں، بلے بازوں نے کپتان کا ساتھ نہیں دیا اور فیلڈرز نے کئی مواقع ضائع کیے ، یوں پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ میں نئے زوال کو چھو لیا۔ وہ گرتے پڑتے عالمی درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر آ گیا ہے۔

سومیا سرکار کو میچ اور تمیم اقبال کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب دونوں ٹیمیں واحد ٹی ٹوئنٹی میں مدمقابل آئیں گی جس کے بعد مہینے کے آخر سے دو ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز شروع ہوگی۔