تمیم اور قیس نے بنگلہ دیش کو شکست سے بچا لیا، کھلنا ٹیسٹ ڈرا

1 1,027

جب پاکستان کے کھلاڑیوں کے چہروں کی مسکراہٹیں لوٹ آئیں، تناؤ کے بجائے ایک سکون اور اطمینان جھلک رہا تھا تو عین اسی وقت بنگلہ دیش نے اسے حیران کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلی اننگز میں 296 رنز کی بھاری برتری حاصل کرنے والے پاکستان کے ارمان تمیم اقبال اور امر القیس کی ریکارڈ ساز اننگز نے ٹھنڈے کردیے اور تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش پاکستان کے خلاف کوئی ٹیسٹ مقابلہ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

ڈھاکہ میں تمام مقابلوں میں شکست کے بعد جب پاکستان پہلا ٹیسٹ کھیلنے کے لیے کھلنا پہنچا تو ایسا محسوس ہو ا کہ وہ تمام تر توانائیاں اور جذبے لوٹ آئے ہیں، جو محدود طرز کے مرحلے میں مفقود تھے۔ بنگلہ دیش کے دورے پر اب تک تمام مقابلوں میں شکست کا سحر توڑنے میں پاکستان کو ایک دن ضرور لگا، جب پہلے روز کھلاڑیوں نے کئی مواقع ضائع کیے اور بنگلہ دیش کو پہلے دن حاوی ہونے کا موقع دیا۔ اس کے بعد پاکستان دو دن تک مقابلے پر مکمل طور پر چھایا رہا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مصباح کی قیادت کا سحر طاری ہوچکا ہے لیکن جیسے ہی پاکستان خوابناک مرحلے میں داخل ہوا، بنگلہ دیش کی کارکردگی سے سب چھناکے سے ٹوٹ گیا۔ بنگلہ دیش تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے خلاف کسی ٹیسٹ میں شکست سے فرار اور پہلی اننگز میں 296 رنز کے بڑے خسارے کے باوجود باآسانی مقابلہ بچانے میں کامیاب ہوگیا۔

کھلنا میں بنگلہ دیش نے ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے فیلڈرز کی فیاضی اور بنگلہ دیش کے مومن الحق کی عمدہ بلے بازی نے پہلے دن ہی میزبان کو 236 رنز تک پہنچا دیا۔ اگر آخری اوور میں مومن کی وکٹ نہ گرتی تو پاکستان کے لیے بہت ہی مایوس کن دن ہوتا۔ بہرحال، مایوسی تو پھر بھی کم نہیں تھی کیونکہ پاکستان جنید خان اور وہاب ریاض جیسے تیز گیندبازوں اور محمد حفیظ، ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ کی اسپن مثلث کے ذریعے بھی بنگلہ دیش پر قابو نہ پا سکا۔ پاکستان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ دوسرے روز فیلڈر خواب کی دنیا سے باہر نکل آئے اور ہوش میں آتے ہی انہوں نے بہت عمدہ کارکردگی دکھائی ۔ پاکستان گیندبازوں اور میدان بازوں کی یکساں نمایاں کارکردگی کی وجہ سے مقابلے کی دوڑ میں واپس آ گیا اور بنگلہ دیش کی آخری 7 وکٹیں صرف 96 رنز کی اضافے پر حاصل کرلیں۔ حالانکہ 236 رنز تک بنگلہ دیش کے محض 3 کھلاڑی آؤٹ تھے۔

پہلی اننگز میں مومن الحق 80 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں رہے۔ یہ ان کی 13 ٹیسٹ کے مختصر کیریئر میں آٹھویں نصف سنچری اور 50 رنز سے زیادہ کی 12 ویں اننگز تھی جو ان کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ ان کے علاوہ امر القیس نے 51 اور محمد اللہ نے 49 رنز کی عمدہ اننگز کھیلیں۔ چھٹی وکٹ پر سومیا سرکار اور مشفق الرحیم کی 62 رنز کی شراکت داری بنگلہ دیش کو 300 کا ہندسہ عبور کراگئی اور 332 رنز تک پہنچتے پہنچتے پوری ٹیم آؤٹ ہوگئی۔

پاکستان کی جانب سے یاسر شاہ اور وہاب ریاض نے تین، تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ دو، دو وکٹیں ذوالفقار بابر اور محمد حفیظ نے حاصل کیں۔

اب پاکستان کے بلے بازوں کا امتحان تھا اور بلاشبہ انہوں نے کمال کردیا۔ محمد حفیظ کی ڈبل سنچری، 80 سے زیادہ رنز کی تین اننگز، ایک مزید نصف سنچری اور ابتدائی تمام 6 وکٹوں پر 50 سے زیادہ رنز کی شراکت داریوں نے پاکستان کو 628 رنز تک پہنچا دیا۔ حفیظ، جو ماضی میں دو مرتبہ ڈبل سنچری کے بہت قریب پہنچنے کے باوجود محروم رہے، اس بار نہیں چوکے اور 286 گیندوں پر اپنی پہلی ڈبل سنچری اننگز مکمل کی۔ انہوں نے اظہر علی کے ساتھ دوسری وکٹ پر 227 رنز کی بہترین شراکت داری قائم کی جس میں اظہر کا حصہ 83 رنز کا تھا۔ یونس خان 'بلے بازوں کی جنت' میں بھی صرف 33 رنز بنا سکے جبکہ آنے والے تینوں بلے بازوں مصباح الحق، اسد شفیق اور سرفراز احمد نے رنز کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ مصباح نے 59 رنز بنائے، اسد شفیق نے 83 جبکہ سرفراز نے 82 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ سرفراز اور اسد نے چھٹی وکٹ پر 126 رنز جوڑےاور اسکور کو 594 رنز تک پہنچایا۔ جس کے بعد آنے والی وکٹیں محض 34 رنز کا اضافہ کرسکیں۔ لیکن 296 رنز کی شاندار برتری کے حصول کے بعد پاکستان مطمئن تھا، 628 رنز کا جگمگاتا ہندسہ اس کی کارکردگی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا۔

بنگلہ دیش کی جانب سےتیج الاسلام نے 6 وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن انہیں اس کے لیے 163 رنز کا 'جرمانہ' ادا کرنا پڑا۔ ان کے علاوہ شکیب نے 146 رنز کے عوض صرف 1 جبکہ شووگتا ہوم نے 120 رنز کے بدلے میں 2 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک وکٹ پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے محمد شاہد کو بھی ملی۔

بنگلہ دیش نے چوتھے دن کھانے کے وقفے سے کچھ پہلے دوسری اننگز سنبھالی۔ دو دن تک میدان میں خوار ہونے کے بعد میزبان کھلاڑیوں کو کسی معجزے کی ضرورت تھی۔ پاکستان کے حوصلے بلند تھے اور وہ کسی بھی لمحے مقابلے پر حاوی ہوسکتے تھے۔ لیکن بنگلہ دیش نے پاکستان کے نہلے کا جواب دہلے سے دیا۔ چوتھے روز کے باقی بچ جانے والے 61 اوورز تک انہوں نے پاکستان کے گیندبازوں کو کوئی موقع نہیں دیا اور ساڑھے 4 رنز فی اوور کے شاندار اوسط کے ساتھ 273 رنز بنا کر پاکستان کی کارکردگی کی قلعی کھول دی۔

اب پاکستان کے پاس صرف ایک دن تھا اور بچانے کے لیے کچھ نہیں۔ اگر توقعات سے کہیں بڑھ کر صبح کے پہلے سیشن میں نصف درجن وکٹیں حاصل کرلیتا تو شاید کچھ ممکن ہوتا، یعنی پاکستانی گیندبازوں نے دوسرے روز کی صبح والی کارکردگی دکھانی تھی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ پہلے سیشن کی دوڑ دھوپ کے باوجود صرف امر القیس ہی پاکستانی گیندبازوں کے ہتھے چڑھ سکے۔ قیس نے 240 گیندوں پر 150 رنز کی کیریئر کی بہترین اننگز کھیلی۔ دوسرے کنارے پر موجود تمیم اقبال پاکستانی گیندبازوں پر چھائے رہے اور پہلی بار ڈبل سنچری کا سنگ میل عبور کیا۔ انہوں نے صرف 264 گیندوں پر 17 چوکوں اور 7 چھکوں کی مدد سے یہ تاریخی اننگز مکمل کی اور پھر 206 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوگئے۔ وہ بنگلہ دیش کی ٹیسٹ تاریخ کی سب سے بڑی اننگز کھیلنے والے بلے باز بھی بنے۔ ان کی میدان سے واپسی کے وقت ہی بنگلہ دیش کا اسکور 3 وکٹوں پر 399 رنز تھا۔ بعد میں محمود اللہ کے 40 اور شکیب الحسن کے ناقابل شکست 76 رنز نے پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ جب کھیل آخری گھنٹے میں داخل ہوا اور بنگلہ دیش کی برتری 259 رنز تک پہنچ چکی تھی تو امپائروں کی دعوت پر بنگلہ دیش نے 555 رنز پر اننگز مکمل کرنے کا فیصلہ کیا اور تاریخ رقم کردی۔ ماضی میں کھیلے گئے تمام 8 ٹیسٹ مقابلوں میں فتح نے پاکستان کے قدم چومے تھے لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ بنگلہ دیش شکست کے چنگل سے بچ گیا۔

دوسری اننگز میں پاکستانی گیندبازوں کی کارکردگی کتنی مایوس کن رہی، اعدادوشمار ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 7 میں سے 5 گیندباز ایسے تھے جنہوں نے 4 سے زیادہ فی اوور کے اوسط کے ساتھ رنز دیے۔یاسر شاہ نے بغیر کسی وکٹ کے 123 رنز دیے،88 رنز جنید خان اور 82 محمد حفیظ نے دیے اور ان سب کو ہر اوور میں اوسطاً 4 سے زیادہ رنز پڑے۔

تمیم اقبال کو میچ کے نازک ترین مرحلے پر تاریخی اننگز کھیلنے پر بہترین کھلاڑی کے اعزاز سے نوازا گیا۔

پاکستان کے لیے یہ دورۂ بنگلہ دیش بھی مجموعی طور پر بہت مایوس کن رہا ہے۔ تمام ایک روزہ مقابلوں اور واحد ٹی ٹوئنٹی میں شکست کے بعد جب معاملہ ٹیسٹ مرحلے میں داخل ہوا تو کچھ امید تھی کہ مصباح الحق کی زیر قیادت پاکستان کچھ کر دکھائے گا۔ بہرحال، شکست سے تو بچ گیا لیکن جس طرح مقابلے پر حاوی ہوگیا تھا، اس کے بعد تجربے کی بنیاد پر پاکستان کو کھلنا ٹیسٹ جیتنا چاہیے تھا۔

اب پاکستان کے پاس صرف ایک موقع ہے، 6 مئی سے ڈھاکہ میں شروع ہونے والا آخری ٹیسٹ۔ اگر وہاں بھی جیت کا جشن نہ مناسکے تو بنگلہ دیش سے مکمل طور پر ناکام و نامراد لوٹیں گے اور یہ پاکستان کرکٹ کے لیے کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں ہوگا۔