کلارک کی تاریخی اننگز، جنوبی افریقہ بے حال لیکن مقابلہ بے نتیجہ

0 1,060

ٹیسٹ میں ’نمبر ایک‘ کے حصول کے لیے نئی جنگ کا آغاز کیا خوب انداز سے ہوا ہے۔ جنوبی افریقہ ژاک کیلس اور ہاشم آملہ کی کراری سنچریوں کی بدولت 450 رنز جوڑنے اور محض 40 رنز پر آسٹریلیا کے تین ابتدائی بلے بازوں کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو گیا، تو گویا میزبان ٹیم کے لیے اک بڑا ہمالیہ سر کرنا باقی تھا اور اس میں کامیابی بخشی مائیکل کلارک کی ناقابل شکست قائدانہ ڈبل سنچری اننگز نے،جو کہ نہ صرف میچ بچا گئی بلکہ ثابت کیا کہ اس وقت کلارک نے بہتر ’کپتان بلے باز‘ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے جن حالات میں اور جس پائے کے باؤلنگ اٹیک کے خلاف یہ ناقابل شکست سنچری کھیلی، وہ آسٹریلیا کے عظیم بلے بازوں کی فہرست میں کلارک کی صورت میں جلد اک نئے بیٹسمین کے اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔

مائیکل کلارک نے سال میں ریکارڈ تیسری ڈبل سنچری بنائی (تصویر: Getty Images)
مائیکل کلارک نے سال میں ریکارڈ تیسری ڈبل سنچری بنائی (تصویر: Getty Images)

البتہ یہ ایک زبردست معرکے کا افسوسناک انجام تھا، اتنے خوبصورت مقابلے کو بغیر نتیجے تک پہنچے ختم نہیں ہونا چاہیے تھا۔ شاید یہ دوسرے روز برسبین میں ہونے والی بارش، اور اس کے نتیجے میں ایک بھی گیند نہ پھینکے جانے کا خمیازہ تھا کیونکہ اگر ایک دن میسر آ جاتا تو بلاشبہ یہ میچ نتیجہ خیز ہوتا۔

بہرحال، مائیکل کلارک کی 259 رنز کی ناقابل شکست اننگز اور ایڈ کووان کی 136 رنز کے ذریعے پہلی ٹیسٹ سنچری اور پھر مائیکل کلارک کے 100 رنز سے حریف ٹیم کی کارکردگی کو گہنا کر رکھ دیا اور اس کے قدم جو ابتداء میں بہت تیزی سے بڑھ رہے تھے، میں بیڑیاں ڈال کر ثابت کر دیا کہ سیریز میں بہت سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا اور آسٹریلیا ایک لمحے بھی ہتھیار نہیں ڈالے گا۔

میچ کا آغاز پہلے روز جنوبی افریقہ کے ٹاس جیتنے اور اس کے بعد ہاشم آملہ اور ژاک کیلس کی عمدہ بلے بازی کے ساتھ ہوا۔ گو کہ کپتان گریم اسمتھ کی وکٹ گرنے کے باعث جنوبی افریقہ کو ابتدائی شراکت نصیب نہ ہو سکی لیکن پہلے الویرو پیرٹسن اور ہاشم آملہ کے درمیان 90 اور پھر ژاک کیلس اور ہاشم کے درمیان 165 رنز کی رفاقت نے مقابلے کو جنوبی افریقہ کے پلڑے میں جھکا دیا۔ آسٹریلوی باؤلرز پہلے پورے دن کی محنت کے بعد صرف دو وکٹیں ہی سمیٹنے میں کامیاب ہوئے۔ گریم اسمتھ 10 رنز بنانے کے بعد جیمز پیٹن سن اور الویرو پیٹرسن 64 رنز بنانے کے بعد ناتھن لیون کا شکار بنے اور جب پہلے روز کھیل اختتام کو پہنچا تو اسکور بورڈ پر صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر 255 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔ ہاشم آملہ 90 اور کیلس 84 رنز کی اننگز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے لوٹے تو جنوبی افریقی خیمہ بہت مطمئن دکھائی دیتا تھا۔

لیکن مہمان ٹیم کی بلند حوصلگی پر بارش نے پانی پھیر دیا۔ جس نے برسبین میں دوسرے ایک اوور کا کھیل بھی نہ ہونے دیا۔ یوں میچ کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات ویسے ہی آدھے ہو گئے۔ تیسرے روز جنوبی افریقہ نے اننگز کا آغاز کیا تو پہلے ہاشم اور پھر کیلس نے اپنی سنچریاں مکمل کیں۔ آسٹریلوی گیند باز مکمل طور پر بے بس دکھائی دیتے تھے کہ انہیں آہستہ آہستہ وکٹیں ملنا شروع ہوئیں۔ 284 کے مجموعے پر ہاشم 104 رنز بنانے کے بعد پیٹر سڈل وکٹ بنے۔انہوں نے 244 گیندوں پر ایک چھکے اور 7 چوکوں کی مدد سے یہ رنز بنائے۔ پھر کیلس اور ابراہم ڈی ولیئرز کے درمیان 90 رنز کی رفاقت ٹھیری جو کیلس کی 147 رنز کی اننگز کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی۔ کیلس نے 274 گیندوں کا سامنا کیا اور 15 مرتبہ گیند کو باہر کی راہ دکھائی، جس میں ایک چھکا شامل تھا۔ آنے والے بلے بازوں میں ڈی ولیئرز 40 اور ژاک روڈلف 31 رنز کے ساتھ نمایاں رہے اور جب اسکور 450 پر پہنچا تو مورنے مورکل کی صورت میں نویں وکٹ گرتے ہی جنوبی افریقی اننگز اپنے اختتام کو پہنچی۔ ان کے کھلاڑی ژاں پال دومنی زخمی ہونے کے باعث میچ میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ اس لیے جنوبی افریقہ کو ایک کھلاڑی کی کمی کے باعث 9 وکٹوں سے کھیلنا تھا۔

آسٹریلیا کی جانب سے پہلی اننگز میں پیٹن سن نے 3، جبکہ بین ہلفناس، سڈل اور لیون نے 2،2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

ژاک کیلس نے پہلی اننگز میں 147 رنز کی زبردست باری کھیلی (تصویر: Getty Images)
ژاک کیلس نے پہلی اننگز میں 147 رنز کی زبردست باری کھیلی (تصویر: Getty Images)

تیسرے روز کے آخری سیشن میں جب آسٹریلیا بلے بازی کے لیے میدان میں اترا تو اس کے سامنے 450 رنز کا دباؤ تھا اور اسی دباؤ کو جھیلنے میں ناکامی کے باعث اسے یکے بعد دیگرے تین وکٹیں گنوانی پڑیں۔ پہلے ڈیوڈ وارنر ڈیل اسٹین کی گیند پر دوسری سلپ میں کیلس کو کیچ دے بیٹھے اور کچھ ہی اوورز کے بعد پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے راب کوئنی مورنے مورکل کی گیند پر ایک بہت ہی ناقص شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے۔ اک ایسی صورتحال میں جب سنبھل کر کھیلنے کی ضرورت تھی، کوئنی نے ایک اٹھتی ہوئی گیند کو پل کیا اور عین باؤنڈری لائن پر ڈیل اسٹین کے ہاتھوں میں کیچ دے بیٹھے۔ صرف 9 رنز کے ساتھ ان کی ڈیبیو اننگز اپنے اختتام کو پہنچی۔ بات یہیں تک محدود رہتی تو کافی تھا لیکن مورکل نے اگلے ہی اوور میں تجربہ کار رکی پونٹنگ کو صفر پر سلپ میں کیچ آؤٹ کر کے سنسنی پھیلا دی۔ وہ مورنے کی ایک اٹھتی ہوئی گیند پر ایک مرتبہ پھر دوسری سلپ میں کیلس کا نشانہ بنے اور یوں آسٹریلیا محض 40 رنز پر تین وکٹیں گنوا بیٹھا۔

جنوبی افریقہ کی گرفت مقابلے پر بہت ہی زیادہ مضبوط ہو چکی تھی، اور مائیکل کلارک میدان میں اترے۔ دوسرے اینڈ پر اوپنر ایڈ کووان اُن کے ساتھ تھے اور دن کے بقیہ اوورز میں مزید کوئی وکٹ نہ گرنے دی اور جب تیسرے روز کا کھیل ختم ہوا تو آسٹریلیا کا اسکور 3 وکٹوں پر 111 رنز تھا۔ کووان 49 اور کلارک 34 رنز پر کھیل رہے تھے۔

چوتھا روز آسٹریلیا کے لیے میچ کا اہم ترین دن تھا، اس دن کی کارکردگی اس کے لیے میچ کے نتیجے کا فیصلہ کر دیتی۔ پھر دونوں اینڈز سے کیا یادگار اننگز کھیلی گئیں۔ کووان اور کلارک نے کمال کر دکھایا۔ انہوں نے صبح کے سیشن میں 103 رنز کا اضافہ کیا اور آسٹریلیا کے حوصلے بندھ گئے۔ اس دوران دونوں نے اپنی نصف سنچریاں مکمل کیں اور اگلے ہدف مقرر کر لیے۔ جنوبی افریقہ بہت شدت سے ”نئی گیند“ کا منتظر تھا اور جب تک وہ میسر نہ آئی وہ اگلی وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیکس میں شمار کیے جانے والے جنوبی افریقہ کے خلاف گابا کی وکٹ پر جس جراتمندی اور بہادری کے ساتھ دونوں بلے بازوں نے کارکردگی دکھائی، وہ قابل تحسین ہے۔ کووان نے کیریئرکی پہلی سنچری 185 گیندوں پر مکمل کی جس کے کچھ ہی دیر بعد کلارک بھی 210 گیندوں پر تہرے ہندسے میں داخل ہو گئی۔ چائے کے وقفے سے قبل کووان بہت ہی بدقسمت ثابت ہوئے جب ڈیل اسٹین کی گیند کو سیدھا کھیلتے ہوئے گیند ان کی انگلیوں کو چھوتی ہوئی اس وکٹ نان اسٹرائیکنگ اینڈ کی وکٹوں سے جا ٹکرائی جب کووان کریز میں موجود نہیں تھے۔ یوں 136 رنز کی ایک دلیرانہ اننگز کا خاتمہ ہوا۔ کووان نے 257 گیندوں کا سامنا کیا اور 17 چوکے لگائے۔

دونوں کھلاڑیوں کے درمیان چوتھی وکٹ پر 259 رنز کی ایک میچ بچاؤ رفاقت قائم رہی۔

اب وکٹ پر کلارک کے ساتھ تجربہ کار مائیکل ہسی تھے، جنہوں نے کپتان کے بالکل مختلف رویہ اپنایا اور بہت تیز کھیلا۔ انہوں نے صرف 68 گیندوں پر اپنی نصف سنچری مکمل کی جبکہ کلارک دوسرے اینڈ سے ڈبل سنچری کی جانب گامزن تھے۔ ہسی کی تیز بیٹنگ کا فائدہ یہ ہوا کہ آسٹریلیا تیزی سے جنوبی افریقہ کے اسکور کی جانب بڑھنے لگا۔ دونوں کھلاڑیوں کے درمیان 150 رنز کی شراکت محض 188 گیندوں پر مکمل ہوئی۔ جب آسٹریلیا نے آخری سیشن میں 450 کا ہندسہ عبور کیا تو کچھ ہی دیر بعد کلارک نے اپنی ڈبل سنچری بھی مکمل کر لی۔

یہ مائیکل کلارک کے کیریئر کی دوسری ڈبل سنچری تھی (وہ ایک ڈبل سنچری کو ٹرپل سنچری میں بدل چکے ہیں) اور حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی یہ تینوں بہترین اننگز اسی سال کھیلی گئیں۔ یوں وہ عظیم سر ڈان بریڈمین اور ساتھی کھلاڑی رکی پونٹنگ کے بعد کلینڈر ایئر میں تین ڈبل سنچریاں داغنے والے تیسرے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ انہوں نے رواں سال اپنی پہلی ڈبل سنچری 3 جنوری کو بھارت کے خلاف سڈنی ٹیسٹ میں بنائی تھی بلکہ وہ ایک ناقابل شکست ٹرپل سنچری تھی جس میں انہوں نے 329 رنز اسکور کیے۔ دوسری ڈبل سنچری اسی مہینے میں انہوں نے بھارت ہی کے خلاف ایڈیلیڈ میں بنائی جب وہ 210 رنز بنانے میں کامیاب رہے اور اب نومبر کے مہینے میں سال کی تیسری ڈبل سنچری۔ کیا کمال کی فارم ہے کلارک کی!

جب چوتھے روز کا کھیل ختم ہوا تو آسٹریلیا کا اسکور 487 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ تھا۔ کلارک 218 اور ہسی 86 پر ناقابل شکست تھے۔ میزبان کھلاڑیوں اور شائقین کے چہروں پر مسکراہٹ لوٹ آئی تھی کیونکہ آسٹریلیا ایسی پوزیشن پر تھا جہاں سے وہ مقابلہ جیت تو سکتا تھا، لیکن ہارنے کے امکانات بہت کم تھے۔

آخری روز آسٹریلیا نے سب سے پہلے 500 کا ہندسہ عبور کیا جس کے بعد کلارک-ہسی شراکت داری نے 200 کو چھوا۔ پھر جیسے ہی اگلا سنگ میل یعنی مائیکل ہسی کی سنچری مکمل ہوئی، آسٹریلیا کو وکٹ کا نقصان اٹھانا پڑ گیا۔ ہسی مورکل کی تیسری وکٹ بنے جب شارٹ کور پر متبادل کھلاڑی فرانکو دو پلیسے کے اک شاندار کیچ کا نشانہ بن گئے۔ ہسی نے صرف 129 گیندیں کھیلیں اور 13 چوکوں کی مدد سے 100 رنز بنائے۔

آسٹریلیا نے 565 تک پہنچنے کے بعد کھانے کے وقفے سے قبل 115 رنز کی برتری کے ساتھ اننگز ڈکلیئر کر دی۔ کلارک 259 رنز پر ناقابل شکست رہے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے مورکل نے 3 اور اسٹین نے ایک وکٹ حاصل کی جبکہ آزمائے گئے دیگر 6 باؤلرز نامراد رہے۔

آخری روز آسٹریلوی باؤلرز نے جنوبی افریقہ کو ناکوں چنے چبوا دیے، لیکن میچ نتیجہ خیز مرحلے میں داخل نہ ہو سکا (تصویر: Getty Images)
آخری روز آسٹریلوی باؤلرز نے جنوبی افریقہ کو ناکوں چنے چبوا دیے، لیکن میچ نتیجہ خیز مرحلے میں داخل نہ ہو سکا (تصویر: Getty Images)

جنوبی افریقہ کو بلے بازی کے لیے میدان میں اترا تو گویا آسٹریلوی باؤلرز اپنے عروج پر تھے۔ انہوں نے حریف کپتان گریم اسمتھ سمیت تقریباً تمام ہی حریف بلے بازوں کو خوب پریشان کیا۔ پے در پے اپیلیں، باؤنسرز اور آؤٹ سوئنگرز نے پروٹیز بلے بازوں کے پسینے نکال دیے۔ دوسرے اوور میں پیٹرسن کی وکٹ گرنے کے بعد گریم اسمتھ کو اپنے ہم منصب سے سیکھتے ہوئے سنبھل کر کھیلنے کی ضرورت تھی لیکن وہ اسکور کو 23 رنز تک ہی پہنچا پائے اور جنوبی افریقہ 55 رنز اوپنرز کو گنوا بیٹھا۔ دونوں وکٹیں پیٹن سن کے ہاتھ لگیں۔جنوبی افریقہ کے لیے مزید مشکلات کھڑی جب چائے کے وقفے سے پہلے اور بعد میں یکے بعد دیگرے ہاشم آملہ اور ژاک کیلس کی وکٹیں گر گئیں۔ جس کے نتیجے میں 129 پر اس کے چار کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔ ہاشم 38 اور کیلس 49 رنز بنانے کے بعد بالترتیب سڈل اور لیون کا شکار بنے۔

جنوبی افریقہ کو اس موقع پر کسی بلے باز کی ذمہ دارانہ اننگز کی اشد ضرورت تھی، اور اس ذمہ داری کو پورا کیا ابراہم ڈی ولیئرز نے جنہوں نے 114 گیندیں کھیلیں اور 29 رنز بنائے۔ اور بالآخر 166 رنز پانچ کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ جب پانچویں روز آخری گھنٹے کا آغاز ہوا تو دونوں ٹیموں نے امپائروں کی نہ کھیلنے کی پیشکش کو قبول کیا اور یوں اک شاندار ٹیسٹ میچ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوا۔ بلاشبہ یہ آسٹریلیا کی اخلاقی فتح ہے، کیونکہ ابتدائی دو دن تک جدوجہد کرنے کے بعد اس نے جس طرح بقیہ دو دونوں میں واپسی کی، اس کے نتیجے میں اسے بھرپور اعتماد حاصل ہوا ہوگا جو اگلے دونوں ٹیسٹ مقابلوں میں کام آئے گا۔

میچ کی ایک مزیدار بات یہ رہی کہ اس میں تین مرتبہ ایسے مواقع آئےجب بلے باز نو بال پر آؤٹ ہوئے۔ پانچویں روز ہاشم آملہ جیمز پیٹن سن کی گیند پر بولڈ ہوئے تو امپائر اسد رؤف کے کہنے پر تھرڈ امپائر نے نو بال کو چیک کیا اور پیٹن سن کا قدم واضح طور پر لائن سے آگے پایا۔ اس سے قبل پہلے روز پیٹر سڈل کی گیند پر ژاک کیلس اور تیسرے روز مورنے مورکل کی گیند پر ایڈ کووان نو بال پر زندگیاں پا چکے تھے۔

مائیکل کلارک کو تاریخی ڈبل سنچری داغنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز کا اگلا ٹیسٹ 22 نومبر سے ایڈیلیڈ اوول میں کھیلا جائے گا۔ جہاں جنوبی افریقہ کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ حقیقی نمبر ایک ٹیم ہے جبکہ آسٹریلیا کو برسبین سے ملےہوئے اعتماد کو بنیاد بناتے ہوئے سیریز میں ناقابل شکست برتری حاصل کرنے کی سعی کرنا ہوگی۔