دورۂ آسٹریلیا: تیز گیند بازی کے شعبے میں بھارت کو سخت مشکلات کا سامنا

0 1,057

بھارت کے لیے تیز گیند بازی کا شعبہ عرصہ دراز سے باعث تشویش ہے۔ جواگل سری ناتھ اور وینکٹش پرساد جیسے گیند بازوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے بھارت میں چند ہی تیز گیند باز منظر عام پر آئے، جنہوں نے مختصر عرصوں کے لیے کامیابیاں ضرور سمیٹیں لیکن قومی کرکٹ ٹیم کے لیے مستقل خدمات انجام دینا سب کے بس کی بات نہ تھی۔ انہی میں ظہیر خان بھی شامل ہیں، اک ایسا نام ہے جس نے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا ہے کہ بھارت میں تیز گیند باز جنم نہیں لیتے۔ وہ مکمل طور پر ایسی طرز کے گیند باز ہیں جو پاکستان ہی میں جنم لے سکتے ہیں، یعنی نئی گیند کو سوئنگ اور پرانی گیند کو ریورس کرنے والے۔ لیکن ان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ انجریز کا رہا ہے۔ 2003-04ء کے دورۂ آسٹریلیا میں ایک پراسرار انجری کے بعدوہ دو سال تک قومی ٹیم میں مکمل طور پر واپس نہیں آ پائے ۔

2006ء میں جب وہ قومی ٹیم میں واپس آئے تو اس کے بعد سے ان کی آمدورفت جاری رہی اور گزشتہ پانچ سیزنز میں وہ بھارت کے ہر تین میں سے صرف ایک ٹیسٹ ہی کھیل پائے۔ 2011ء کے دورۂ انگلستان میں وہ پہلے ٹیسٹ میں محض 13 اوورز کرانے کے بعد ٹیم سے ایسے باہر ہوئے کہ ابھی تک دوبارہ ان کی واپسی کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

اگر ظہیر آسٹریلیا میں بھارت کی نمائندگی نہیں کر پائے تو بھارت کا تیز گیند بازی کا شعبہ بہت کمزور ہو جائے گا (تصویر: Getty Images)
اگر ظہیر آسٹریلیا میں بھارت کی نمائندگی نہیں کر پائے تو بھارت کا تیز گیند بازی کا شعبہ بہت کمزور ہو جائے گا (تصویر: Getty Images)

گو کہ ظہیر خان خود بھی آسٹریلیا کا دورہ کرنے کے خواہاں ہیں اور اس وقت رانجی ٹرافی کھیل کر اپنی فٹنس ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن چند ماہرین دورۂ انگلستان والی غلطی دہرانے کے حامی نہیں دکھائی دیتے اور ان کا کہنا ہے کہ 50 فیصد فٹ ظہیر کو آسٹریلیا لے جانے کا نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہوگا جیسا کہ انگلستان میں ہوا تھا۔

بھارت کے سابق قائد سارو گنگولی کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ظہیر اب بھی 100 فیصد فٹ نہیں ہیں اور ہم آسٹریلیا میں ایک نیم صحت مند کھلاڑی کو کھلانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے گنگولی نے کہا کہ ظہیر کو اپنی فٹنس ثابت کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مقابلے کھیلنا ہوں گے اور رانجی ٹرافی کا ایک مقابلہ ان کی مکمل صحت یابی کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔

ظہیر خان کو دورۂ آسٹریلیا کے لیے اعلان کردہ دستے میں شامل تو کیا گیا ہے لیکن ان کی شمولیت فٹنس سے مشروط ہے۔ بھارت-آسٹریلیا سیریز کا باضابطہ آغاز 26 دسمبر کو ملبورن میں روایتی 'باکسنگ ڈے ٹیسٹ' سے ہوگا۔ سارو گنگولی کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا روانگی میں ابھی کافی دن باقی ہیں اور میرے خیال میں ظہیر کو رانجی ٹرافی کا ایک اور میچ کھیلنا چاہیے اور آسٹریلیا میں دو پریکٹس مقابلوں میں بھی شرکت کرنی چاہیے۔

دورۂ انگلستان میں یکے بعد دیگرے دو انجریز کے بعد ظہیر خان 29 نومبر کو رانجی ٹرافی کے میچ میں ممبئی کی نمائندگی کے لیے پہلی مرتبہ میدان میں اترے اور دو اننگز میں 22 اوورز پھینکے اور 4 وکٹیں بھی حاصل کیں۔

دوسری ظہیر کے ممکنہ جانشیں پروین کمار بھی پسلی میں تکلیف کے باعث دورۂ آسٹریلیا سے محروم ہو چکے ہیں اور اگر ظہیر ٹیم میں شامل نہیں ہوئے تو بھارت کو ناتجربہ گیند بازوں کے ساتھ آسٹریلیا جیسے حریف کے خلاف میدان میں اترنا پڑے گا۔

دورۂ آسٹریلیا کے لیے اعلان کردہ تیز گیند بازوں میں ظہیر خان کے علاوہ امیش یادیو، ایشانت شرما، ورون آرون اور پروین کمار شامل ہیں جن میں سے ظہیر اور پروین کی فٹنس پر بڑا سوالیہ نشان ہے اور اگر دونوں وہاں نہیں کھیل پاتے تو گیند بازی کا تمام تر بوجھ دو نوجوان اسپنرز یعنی روی چندر آشون اور پراگیان اوجھا پر پر ہوگا جبکہ ایشانت شرما واحد تجربہ کار گیند باز کی حیثیت سے پیس بیٹری کی قیادت کریں گے۔

صورتحال اس حد تک گمبھیر ہو چکی ہے کہ بھارت کے کرکٹ حلقوں میں عرفان پٹھان اور اشیش نہرا جیسے "چلے ہوئے کارتوسوں" کو ایک مرتبہ پھر شامل کیے جانے کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ عرفان پٹھان نے حال ہی میں رانجی ٹرافی میں عمدہ کارکردگی دکھائی ہے جبکہ اشیش نہرا کے بارے میں بھی ایسی ہی خبریں ہیں تاہم یہ دونوں آسٹریلیا میں کس قدر کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں، اس بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ لیکن اگر انہیں اپنے کیریئر کو احیاء کا موقع ملتا ہے تو ان پر سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوگی۔