"اینٹی کلائمیکس" بارش زدہ ٹیسٹ سنسنی خیز مقابلے کے بعد ڈرا، ایشیز انگلستان کے نام

0 1,025

اوول میں بارش سے متاثر ہونے کے بعد ٹیسٹ کے نتیجہ خیز ہونے کی امیدیں تو بہت ہی کم تھیں لیکن آخری روز آسٹریلوی کپتان مائیکل کلارک کے جرات مندانہ فیصلے اور انگلستان کے ڈرامائی تعاقب نے آخری ایشیز ٹیسٹ کو سنسنی خیز مرحلے تک پہنچا دیا لیکن امپائروں نے عین اس وقت کم روشنی کے باعث مقابلہ ختم کرنے کا اعلان کیا جب دن کے بقیہ 4 اوورز میں انگلستان کو 21 رنز کی ضرورت تھی۔

کک نے بحیثیت کپتان پہلی ہی کوشش میں تین-صفر کے واضح مارجن سے ایشیز سیریز جیتی (تصویر: PA)
کک نے بحیثیت کپتان پہلی ہی کوشش میں تین-صفر کے واضح مارجن سے ایشیز سیریز جیتی (تصویر: PA)

آسٹریلیا چار مقابلوں میں چت ہونے کے بعد جب پانچویں و آخری ٹیسٹ میں پہنچا تو اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ بہرصورت جیتنے کے لیے جائے اور اپنی درجہ بندی میں گرتی ہوئی پوزیشن کو بچائے شاید یہی وجہ ہے کہ آخری روز مائیکل کلارک نے اس وقت دوسری اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا جب آسٹریلیا کا اسکور 111 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ تھا اور یوں آخری 44 اوورز میں انگلستان کو فتح کے لیے 227 رنز کا ہدف ملا۔

اندازے تو یہی تھے کہ انگلستان بجائے خطرہ مول لینے کے تین-صفر کی فتح پر قانع ہوگا لیکن مائیکل کلارک کا یہ کھلا چیلنج انگلستان کے لیے تازیانہ ثابت ہوا اور اس نے ابتداء ہی سے ہدف کو عبور کرنے کی ٹھان لی اور مقابلہ انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا۔ انگلستان کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں لیکن رنز بنانے کی رفتار میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ ابتدائی اوورز ہی میں جو روٹ کی وکٹ گرنے کے بعد ایلسٹر کک اور جوناتھن ٹراٹ نے 64 رنز جوڑے اور کک کے ایل بی ڈبلیو ہونے کے بعد امکان تھا کہ انگلستان اب محفوظ راستہ پکڑے گا لیکن کیون پیٹرسن اور ٹراٹ کی 77 رنز کی تیز رفتار شراکت داری نے گویا مقابلے میں جان سی بھر دی۔ اگر یک بیک پیٹرسن اور ٹراٹ کی وکٹیں نہ گرتیں تو انگلستان بہت تیزی سے ہدف کی جانب پہنچ جاتا کیونکہ اس وقت اسے محض 57 رنز کی ضرورت تھی اور تقریباً اتنی ہی گیندوں کا کھیل باقی تھا لیکن راین ہیرس کا آتے ہی پہلی گیند پر کیون پیٹرسن کو آؤٹ کرنا اور اگلے ہی اوور میں فاکنر کے ہاتھوں ٹراٹ کا ایل بی ڈبلیو آسٹریلیا کے لیے سکھ کا سانس ثابت ہوا۔

لیکن انگلستان ان حالات میں بھی ہدف کا تعاقب چھوڑنے کا تیار نہ تھا اور جب کم روشنی کی وجہ سے امپائروں نے کھیل روکنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت 4 اوورز میں انگلستان کو صرف 21 رنز کی ضرورت تھی اور وکٹ پر کرس ووکس 13 گیندوں پر 17 رنز کے ساتھ موجود تھے جبکہ آخری گیند پر اتنی 17 ہی گیندوں پر 17 رنز بنانے والے این بیل رن آؤٹ ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امپائر نے مزید تاخیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور مقابلے کو ڈرا قرار دیا۔ میدان میں تماشائیوں کا جوش و خروش یکدم ٹھنڈا پڑ گیا اور انہوں نے امپائر کمار دھرماسینا اور علیم ڈار کے اس فیصلے پر سخت ناخوشی کا اظہار بھی کیا۔

قبل ازیں، پہلے روز آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر بلے بازی کا فیصلہ کیا اور ڈیوڈ وارنر کی وکٹ جلد گنوانے کے باوجود شین واٹسن کی سیریز میں پہلی جاندار کارکردگی اور بعد ازاں اسٹیون اسمتھ کی کیریئر کی پہلی سنچری کی بدولت 492 رنز 9 کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا۔ شین واٹسن نے سیریز میں پہلی بار اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا اور 247 گیندوں پر 176 رنز کی شاندار اننگز کھیل کے آسٹریلیا کے لیے آخری ٹیسٹ کے آغاز کو حوصلہ افزاء بنا دیا کیونکہ آسٹریلیا پہلے دن کے اختتام تک صرف 4 وکٹوں کے نقصان پر 307 رنز بنا چکا تھا۔

دوسرے دن ایک سیشن سے بھی زیادہ کا کھیل بارش کی نذر ہو گیا اور شاید یہی بارش اور کم روشنی کے مسائل تھے جن کی وجہ سے یہ ٹیسٹ فیصلہ کن نہ ہوسکا۔ بہرحال، آسٹریلیا نے اسٹیون اسمتھ کی شاندار بلے بازی کی بدولت اسکور کو 492 رنز تک پہنچایا اور دن کے اختتامی لمحات میں اننگز ڈکلیئر کر کے انگلستان کو بلے بازی کی دعوت دی جو بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 32 رنز تک پہنچا۔

تیسرے دن انگلستان نے کھیل کا دوبارہ آغاز کیا اور ٹاپ آرڈر کے تمام بلے بازوں کی جانب سے حصہ ڈالنے کے ذریعے اسکور کو 247 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ تک پہنچا دیا۔ یہ اس سیریز کا بدترین دن تھا۔ انگلستان کی سست روی نے پہلے ہی بارش سے متاثرہ مقابلے کو نتیجے سے دور کر دیا اور جو کسر رہ گئی تھے وہ چوتھے دن کے مکمل کھیل کے ضایع ہونے سے پوری ہوگئی۔

اوول میں نتیجہ نکلتا دکھائی نہ دیتا تھا لیکن آسٹریلیا تو نتیجے کے لیے بے تاب تھا۔ اس نے آخری روز جان لڑا دی اور کھانے کے وقفے کے کچھ ہی دیر بعد 377 رنز پر انگلستان کی پہلی اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ اس اننگز میں جو روٹ 68 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بلے باز رہے جبکہ کیون پیٹرسن نے 50، میٹ پرائیر نے 47 اور این بیل نے 45 رنز بنائے۔

اب آسٹریلیا کے پاس وقت نہیں تھا، مائیکل کلارک بہت بے چین نظر آ رہے تھے۔ آسٹریلیا نےصرف 23 اوورز کھیلے اور 6وکٹوں کے نقصان پر 111 رنز بنانے کے بعد ایک مرتبہ پھر اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا اور انگلستان کو کھلا چیلنج دیا اور جب تک امپائروں نے روشنی کم قرار دیتے ہوئے "رنگ میں بھنگ" نہیں ڈالا، اس وقت تک انگلستان کی پوزیشن مضبوط تھی۔

مائیکل کلارک کی جرات مندی آسٹریلیا کو شکست کے دہانے پر لے جا سکتی تھی لیکن امپائروں نے انہیں بچا لیا (تصویر: Getty Images)
مائیکل کلارک کی جرات مندی آسٹریلیا کو شکست کے دہانے پر لے جا سکتی تھی لیکن امپائروں نے انہیں بچا لیا (تصویر: Getty Images)

آسٹریلیا کے کپتان مائیکل کلارک کا دوسری اننگز ڈکلیئر کرنے کے بعد انگلستان کو چت کرنے کا خواب ایک ڈراؤنے خواب کی صورت اختیار کر سکتا تھا لیکن امپائروں نے انہیں بچا لیا۔ اگر آسٹریلیا اس مقابلے میں شکست کھا جاتا تو نہ صرف یہ کہ دو اننگز ڈکلیئر کرنے کے باوجود شکست کھانے والی تیسری ٹیم بن جاتا بلکہ چار-صفر کی بدترین شکست کا داغ بھی ان کے دامن پر لگ جاتا۔

بہرحال، تین-صفر کی شاندار فتح کے ساتھ انگلستان عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے جبکہ آسٹریلیا دو سالوں کے بعد ایک مرتبہ پھر تنزلی کے بعد پانچویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔ آسٹریلیا کی شکست کا فائدہ پاکستان کو ملا جسے بغیر کسی محنت کے چوتھا درجہ مل گیا ہے جبکہ انگلستان کی فتح کا نقصان بھارت کو اٹھانا پڑا جو اپنی دوسری پوزیشن سے محروم ہوکر اب تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔

شین واٹسن کو پہلی اننگز کی شاندار بلے بازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ انگلستان کی جانب سے این بیل اور آسٹریلیا کی جانب سے راین ہیرس کو سیریز کے بہترین کھلاڑی کے اعزازات دیے گئے۔

اب دونوں ٹیمیں دو ٹی ٹوئنٹی اور پانچ ایک روزہ مقابلوں میں آمنے سامنے آئیں گی اور ان محدود اوورز کے مقابلوں کا سلسلہ 16 ستمبر تک جاری رہے گا۔