انسان دوست شاہد آفریدی

4 1,377

اگر آپ شاہد آفریدی کے بارے میں عام افراد سے دریافت کریں تو منقسم آراء ہی ملیں گی۔ ایک وہ لوگ ہوں گے جو آفریدی کو "بوم بوم" کرکٹر جمع انٹرٹینر" اور "کپتان" مانتے ہیں اور دوسری طرف انہیں جلد باز، ضدی اور خودغرض ماننے والوں کی بھی کمی نہ ہوگی۔ لیکن آج جو آفریدی میرے سامنے موجود ہے، جو اسٹیج پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا ہے، اس کے بارے میں پورے ہال میں صرف ایک ہی رائے ہے، متحمل مزاج، انتہائی سنجیدہ اور انسان دوست اور دردمند دل رکھنے والا شخص، جو پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کے لیے بے چین ہے۔

شاہد آفریدی اپنی فاؤنڈیشن کے حوالے سے بہت پرجوش اور پرعزم نظر آئے (تصویر: BEV)
شاہد آفریدی اپنی فاؤنڈیشن کے حوالے سے بہت پرجوش اور پرعزم نظر آئے (تصویر: BEV)

ٹائی کراچی (TiE Karachi) کی جانب سے شاہد آفریدی کے اعزاز میں رکھی گئی تقریب کو "لالا" نے کسی طور پر ذاتی تشہیر یا 'میڈیائی مشہوری' کے لیے استعمال کرنے کے بجائے تمام وقت اپنی فاؤنڈیشن کے قیام، انتظام اور مستقبل کے لائحہ عمل کو بتانے میں صرف کیا۔ باوجویکہ وہاں موجود اکثر لوگ آفریدی سے یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ بطور کرکٹر انہیں یہ مقام کیسے حاصل ہوا؟ لیکن دو سیشنز پر مشتمل پروگرام کا بمشکل آدھا ہی حصہ ہی شاہد آفریدی نے اپنے بارے میں بتایا اور باقی تمام وقت انہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کی بات کی۔

شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کے قیام کی وجہ بتاتے ہوئے "لالا" نے کہا کہ "والد صاحب کے انتقال کے وقت میں بہت جذباتی تھا اور میرے ذہن میں صرف ایک بات تھی کہ اپنے ان جذبات کو ضائع کرنے کے بجائے کسی نیک کام میں صرف کروں۔ اس کے لیے میں نے اپنے دوست و احباب سے مشورہ کیا، جن میں عمران خان بھی شامل تھے، پھر میں نے اپنے علاقے کا سروے بھی کیا، جہاں مجھے خیال آیا کہ ہمارے یہاں صحت کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آئے روز خبریں ملتی ہیں کہ آج اتنی خواتین دوران زچگی انتقال کر گئیں یا آج اتنے بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوگئے۔ اتنے بڑے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نہ میرے پاس معقول رقم تھی اور نہ ہی زمین، صرف عزم تھا، ارادہ تھا اور میرا ماننا ہے کہ اگر ارادے پختہ ہوں تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرتا ہے۔ بس اسی یقین کے ساتھ میں نے اپنے چچا سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے آبائی علاقے میں میرے والد کے نام پر ایک زمین ہے، میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ وہاں کلینک بناؤں گا۔ لیکن آپ یقین کریں کہ صرف دو کمروں کے کلینک والا آئیڈیا جب لوگوں کو پتہ چلا تو انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور آج اللہ کا شکر ہے کہ وہاں پورا ایک ہسپتال بن چکا ہے۔

پاکستان کرکٹ سے تعلق رکھنے والے لوگ اور ملکی و غیر ملکی اداروں کے اعلیٰ افسران بھی ہال میں موجود تھے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر و مبصر صلاح الدین صلو نے کہا کہ شاہد آفریدی نے ایک زبردست کام شروع کیا ہے، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ارادوں میں کامیاب کرے (آمین)۔ٹی وی اینکر اسد ملک نے بھی شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کی جانب سے ہسپتال کے قیام کو سراہا اور ہسپتال کے لیے 24 گھنٹے خون کے عطیات حسب ضرورت فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ تابانی گروپ آف کمپنیز کے سی ای او رؤف تابانی نے آفریدی کی مضبوط قوت ارادی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ شاہد کے ساتھ کوئی ہو یا نہ ہو، وہ ضرور کامیاب ہوگا۔ میک اے وش فاؤنڈیشن (Make a Wish Foundation) کے چیئرمین نے بتایا کہ لوگ آفریدی سے کتنی محبت کرتے ہیں، کہ لاعلاج امراض میں مبتلا بچوں میں سب سے زیادہ بچے یہ خواہش کرتے ہیں کہ ان کی شاہد آفریدی سے ملاقات کروائی جائے اور کئی بچوں سے تو شاہد نے ملاقات کی بھی ہے۔

اس موقع پر شاہد آفریدی نے ہسپتال کی کامیابی کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک روز ہسپتال میں کاموں کی نگرانی کے بعد جب باہر چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے تو دور پہاڑی علاقے سے ایک خاندان، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، ہسپتال کی طرف آ رہے تھے۔ جب وہ قریب پہنچے تو میں نے بچے سے پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو، اس نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ یہاں دوائیاں ملتی ہیں تو ہم وہ لینے آئے ہیں، میں نے اس بچے کے پاؤں دیکھے تو ننگے پیر پہاڑیوں پر چلنے کی وجہ سے ان سے خون رس رہا تھا، اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں نے ایک صحیح فیصلہ لیا تھا، جس میں اللہ نے مجھے کامیاب کیا ہے۔

شاہد آفریدی کی نونہال شائقین کے ساتھ خصوصی تصویر (تصویر: عرفان کھتری)

ایک سوال کے جواب میں "لالا" نے بتایا کہ وہ شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کے لیے پانچ اور دس سالہ منصوبے کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جن میں کرکٹ اکیڈمی اور پھر تعلیمی اداروں کے قیام کے علاوہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ہسپتالوں کی تعمیر شامل ہیں۔ تقریب میں شامل شخصیات میں پریمیئر کیبلز کے سی او اسی آصف اسماعیل، ٹیچرز ڈیولپمنٹ سینٹر کے عباس حسین، معروف صحافی مرزا افتخار بیگ، ریحان اسکول کے خالق ریحان اللہ والا، معروف کاروباری شخصیت فیضان لغاری اور سوشل میڈیا پر سرگرم کارکن عابد بیلی بھی شریک تھے۔

منتظمین کی جانب سے شمسی بلڈرز کا بطور خاص شکریہ ادا کیا گیا کہ جن کے تعاون سے اس پروگرام کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ اختتامی خطاب میں شعیب شمسی صاحب نے کہا کہ کرکٹ میں مشہور مقولہ ہے کہ Cricket by chance، یہی نکتہ ہماری اور آپ کی زندگیوں کا بھی ہے کیونکہ ہم سب ایک چانس کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں، ہماری تمام زندگی مختلف مواقع اور صورتوں میں چانس لیتے لیتے گزرتی ہے۔ جس طرح کرکٹ میں اسکور کارڈ ہوتا ہے جو ہماری اچھی چیزوں پر اسکور بڑھاتا اور غلط پر سزا دیتا ہے، تو یہی کچھ معاملہ ہماری زندگیوں کا بھی ہے۔ وہ ایک ذات ہے جو ہمارا اسکور اپنے پاس لکھ رہی ہے اور پھر ہمیں آخر میں اس کے بدلے کامیابی یا ناکامی ملے گی۔ تو ہوسکتا ہے کہ شاہد آفریدی مزید ایک سال کرکٹ کھیلیں، لیکن اپنی فاؤنڈیشن اور ہسپتال کے قیام سے جو پودا انہوں نے لگایا ہے، اس کی بدولت کرکٹ ختم ہوجانے کے بعد بھی ان کی زندگی کا اسکور کارڈ متحرک رہے گا۔

پاکستان کی جانب سے 217 کھلاڑیوں نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی لیکن بہت کم کرکٹرز نے کرکٹ کے بعد انسانیت کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا۔ ان میں سے ایک بڑا نام عمران خان اور اب شاہد آفریدی کا ہے۔ عمران خان کا ہسپتال سرطان (کینسر) کے مریضوں کے لیے امید کی کرن ہے اور شاہد آفریدی بھی جلد دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے والے بن جائیں گے۔