ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے پاکستان کا انتخاب، صلاحیتیں نہیں کارکردگی

1 1,181

احمد شہزاد جیسی صلاحیتیں رکھتے ہیں، بدقسمتی سے ان کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کیا۔ مستقل مزاجی کے فقدان کی وجہ سے ان کے انتخاب پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہیں۔ لیکن ٹی ٹوئنٹی کپتان شاہد آفریدی کو ہمیشہ ان کی حمایت حاصل رہی، لیکن دورۂ نیوزی لینڈ پر شاہد آفریدی کا یہ بیان بہت اہمیت کا حامل تھا کہ احمد شہزاد اور عمر اکمل کو ذمہ داری کا احساس کرکے کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا، اتنے مواقع کم ہی کھلاڑیوں کو ملتے ہیں۔ وہیں پر خدشات پید ہوگئے تھے کہ اب ٹیم سلیکشن پر سختی ہوگی۔

اسی دوران پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا آغاز ہوا اور پاکستان نے ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ٹیموں کا اعلان چند روز کے لیے موخر کردیا تاکہ یہاں پیش کردہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے بہتر فیصلہ کر سکے۔ اس لیے دونوں کھلاڑیوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہر مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں اور ٹیم میں جگہ پائیں۔ گوکہ احمد شہزاد کا آغاز اچھا تھا کہ جنہوں نے کراچی کنگز کے خلاف 46 گیندوں پر 71 رنز بنائے لیکن ایک مرتبہ پھر غیر مستقل مزاجی کا عنصر غالب آیا اور باقی دو مقابلوں میں وہ 16 رنز سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یوں 'میگا ایونٹ' کے دروازے ان پر بند ہوگئے۔

پاکستان کے لیے ان کی آخری ٹی ٹوئنٹی کارکردگی بھی مایوس کن رہی تھی۔ نیوزی لینڈ کے دورے پر تین مقابلوں میں وہ صرف 33 رنز ہی بنا سکے تھے اور پاکستان کو بھی دو-ایک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

احمد شہزاد کہتے ہیں کہ ہر کھلاڑی کے کیریئر میں ایسا وقت آتا ہے جب وہ مستقل مزاجی سے رنز نہیں بنا پاتا۔ اگر میری پچھلے تین سالوں کی کارکردگی دیکھیں تو ہر فارمیٹ میں ٹیم کو کامیابی دلانے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس برے وقت میں حل کھلاڑی کو ٹیم سے باہر کرنا نہیں بلکہ ہمت افزائی ہے۔ انہوں نے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے بھارت کے روہیت شرما وار شیکھر دھاون اور انگلستان کے جو روٹ کی مثالیں دیں کہ ان کے کیریئر میں بھی پندرہ، بیس اننگز ایسی آئی ہیں جو زيادہ اچھی نہیں تھی لیکن کپتان اور کوچ نے ان پر بھروسہ کیا اور آج دیکھیں وہ ٹیم کے لیے ناگزیر ہیں۔

واضخ رہے کہ احمد شہزاد ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے سنچری بنانے والے واحد بلے باز ہیں۔ ان کی یہی کارکردگی انہیں ٹیم کا مستقل حصہ بنائے ہوئے تھی لیکن کارکردگی بتدریج زوال کا شکار ہوتی رہی اور آج صورت حال یہ ہے کہ مختصر طرز کی کرکٹ میں ان کا اوسط 20 سے بھی کم ہو چکا ہے۔

Mohammad-Nawaz

پاکستان کے سلیکشن ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ٹیم میں جگہ اُسی کھلاڑی کی بنتی ہے، اور بننی بھی چاہیے، جو کارکردگی پیش کرتا ہے۔ اگر کوئی اچھی فارم میں نہیں تو یہ ضروری نہیں کہ بارہا اس کو مواقع ملیں۔ بلکہ یہ موقع اس کھلاڑی کو دینا چاہیے جو اچھی فارم میں ہو اور ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کر سکے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ پاکستان نے احمد شہزاد کی جگہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے اہم ٹورنامنٹ کے لیے جس کھلاڑی کا انتخاب کیا ہے وہ خرم منظور ہیں۔ یعنی وہی غلطی جو عالمی کپ 2015ء میں کی گئی تھی کہ ناصر جمشید کو یکدم ٹیم کا حصہ بنا دیا گیا۔ وہ کارکردگی پیش نہ کرسکے اور پاکستان بھی کوارٹر فائنل سے آگے نہ جا سکا۔ اب کچھ یہی صورت حال اس وقت درپیش ہے کہ کسی کو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ بالآخر وہ کون سا معیار ہے جس کی بنیاد پر خرم منظور کو شامل کیا گیا ہے جو ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلنے کا تجربہ بھی نہیں رکھتے۔

قومی سلیکٹرز کہتے ہیں کہ ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ایونٹس میں مسلسل اچھی کارکردگی کی بنیاد پر خرم منظور کو منتخب کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال انہوں نے 133 سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ سے 309 رنز بنائے تھے۔ پھر متحدہ عرب امارات میں پاکستان 'اے' کی جانب سے حال ہی میں انگلینڈ لائنز کے خلاف سیریز میں بھی قابل ذکر کارکردگی دکھائی حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر خرم منظور اتنے ہی اچھے کھلاڑی ہیں تو پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیزن کے لیے منتخب ہونے والے لگ بھگ 100 کھلاڑیوں میں ان کا نام کیوں نہیں تھا؟ بہرحال، اب تو خرم منظور منتخب ہو چکے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ صلاحیتوں پر کارکردگی کو ترجیح دے گی۔ جیسا کہ وہ دو کھلاڑی کہ جن کی کارکردگی انہیں قومی دستے تک لائی ہے۔ ایک میڈیم پیسر رمان رئیس، جو اس وقت اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے پی ایس ایل کھیل رہے ہیں اور دوسرے ہیں آل راؤنڈر محمد نواز کہ جن کی بہترین کارکردگی انہیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے لیے ناگزیر بنا چکی ہے۔

محمد نواز اب تک پانچ مقابلوں میں 6.13 کے اوسط سے 9 بلے بازوں کا شکار کر چکے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ صرف گیندبازی پر ہی مہارت نہیں رکھتے بلکہ بلے بازی کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ گزشتہ ماہ نیشنل بینک کی جانب سے کھیلتے ہوئے انہوں نے 187 رنز کی ایک اننگز کھیلی تھی جو ان کی صلاحیتوں کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

محمد نواز کا اپنے انتخاب پر کہنا تھا کہ گو کہ انہوں نے پاکستان 'اے' کی طرف سے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن پی ایس ایل کی وجہ سے انہیں بہت فائدہ ہوا ہے۔ درحقیقت ٹیم میں انتخاب کی وجہ بھی پی ایس ایل ہی ہے۔ نواز نے کہا کہ ان کی پوری کوشش ہوگی کہ بلّے اور گیند دونوں سے اچھی کارکردگی پیش کریں۔ ماضی اور حال کے دو بڑے کھلاڑیوں ویوین رچرڈز اور کیون پیٹرسن کی موجودگی میں نواز کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ نواز نے بتایا کہ ویوین کہتے ہیں کہ "مخالف کو مارو، اس سے پہلے کہ وہ تمہیں مارے۔"

پاکستان سپر لیگ کے انعقاد سے یقیناً پاکستان کرکٹ کو بہت فائدہ ہوگا۔ ابھی چند روز ہی میں اندازہ ہوگیا ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کے لیے یہ کتنا اہم مقام بن گیا ہے۔