ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے عین پہلے ویسٹ انڈیز کرکٹ میں بحران

1 1,059

ایک ایسے وقت میں جب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی دنیائے کرکٹ کے سر پر سوار ہے، ویسٹ انڈیز کے سر پر ایک نئی مصیبت کھڑی ہوگئی ہے۔ ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کو عین اس وقت کھلاڑیوں کے احتجاج کا سامنا ہے جب وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے دستے کا اعلان کر چکا ہے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے اعلان کردہ ویسٹ انڈین اسکواڈ کے کپتان ڈيرن سیمی نے بورڈ کو تحریری طور پر کہا ہے کہ وہ سینٹرل کانٹریکٹ یعنی مرکزی معاہدے کو مسترد کرتے ہیں جس میں گزشتہ عالمی ٹورنامنٹ کے مقابلے میں تقریباً 80 فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ البتہ انہوں نے کہا ہے کہ کیونکہ ٹیم 15 میں سے 14 کھلاڑی ویسٹ انڈیز پلیئرز ایسوسی ایشن (ویپا) کا حصہ نہیں ہیں اس لیے ان کی جانب سے کوئی تنظیم گفت و شنید نہیں کر سکتی۔

گو کہ ڈیرن سیمی نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بائیکاٹ کی دھمکی نہیں دی مگر ٹیم کے باقی کھلاڑیوں کی جانب سے اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات واضح ہے کہ کھلاڑیوں نے اس پیشکش کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے اور اگر بورڈ نے فوری طور پر اس مسئلے کو حل نہ کیا تو سنگین قدم اٹھائے جانے کا خطرہ موجود رہے گا۔

ڈیرن سیمی مزید لکھتے ہیں کہ مجھے اندازہ نہیں ہے کہ آئی سی سی نے ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے کتنی ادائیگی کی جائے گی لیکن شاید یہ لگ بھگ 8 ملین ڈالرز ہوگی۔ سابقہ روایات کے مطابق کل رقم کا 25 فیصد کھلاڑیوں کو جاتا ہے جو 2 ملین ڈالرز بنتی ہے جسے 15 کھلاڑیوں میں تقسیم کریں تو فی کھلاڑی ایک لاکھ 33 ہزار ڈالرز بنتے ہیں۔ مگر بورڈ پوری ٹیم کو مشترکہ طور پر 4 لاکھ 14 ہزار ڈالرز کی پیشکش کررہا ہے جو اصل رقم کا محض پانچ فیصد بنتی ہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک بڑی کٹوتی ہے۔ ہم عالمی ٹورنامنٹ میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں مگر اس مالی پیشکش کو قبول نہیں کرسکتے۔

دوسری ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے سربراہ مائیکل میورہیڈ نے 8 ملین ڈالرز کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ سیمی نے یہ معلومات کہاں سے حاصل کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اختیار "ویپا" کو ہی حاصل ہے کہ وہ مالی معاملات کو حل کرنے کے لیے کھلاڑیوں کی جانب سے بورڈ سے مذاکرات کرے، چاہے وہ کھلاڑی ان کی ایسوسی ایشن کا حصہ ہو یا نہ ہو۔

مائیکل میورہیڈ کے مطابق 2014ء میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے تشکیل شدہ نئے نظام کے تحت عالمی ٹورنامنٹس میں رکن ممالک ہونے والی ادائیگی کا طریقہ تبدیل کردیا گیا تھا۔ اب کسی ایسے ٹورنامنٹ کے بعد یکمشت رقم نہیں ملتی بلکہ اسے 8 سال کے دورانیے پر پھیلا دیا گيا ہے۔ اس لیے یہ جاننا کہ موجودہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے خاص طور پر کتنی رقم ملتی ہے، ممکن نہیں۔ پھر یہ مطالبہ کہ ہر ٹورنامنٹ سے حاصل آمدنی کا 25 فیصد کھلاڑیوں کو ادا کیا جائے تو اب نئے اور شفاف طریقہ کار کے مطابق یہ 4 سال کے دوران ہی کھلاڑیوں میں تقسیم ہوگا اور ویپا نے بھی اسی طریقے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کھلاڑیوں کو ادائیگی عام میچ فیس سے تین گنا زیادہ، ایونٹ کے لیے اسپانسر شپ کا 50 فیصد اور ٹیم کے حاصل کردہ کسی بھی انعام کے 80 فیصد پر مشتمل ہوگی۔ پھر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا کل انعام بھی بڑھایا گیا ہے جو 3 ملین سے 5.6 ملین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے جس میں سے 1.6 ملین ڈالرز فاتح کو ملیں گے۔"

سی ای او ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ نے جواب کے آخر میں واضح کیا ہے کہ بورڈ اس وقت کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتا کیونکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کھیلنے والے تمام کھلاڑیوں کے دستخط شدہ معاہدے 14 فروری کو آئی سی سی کے دفتر پہنچانا ضروری ہے اور یہ تاریخ اب تبدیل نہیں ہو سکتی۔

ویسٹ انڈیز نے 2012ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتا اور اس وقت بھی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔