گھر کا شیر بنگلہ دیش ایک اور سیریز جیت گیا

0 1,220

اگر محنت کی جائے تو دنیا کا کوئی بھی کام ناممکن نہیں رہتا، اور اِس کا عملی ثبوت دیا ہے بنگلہ دیش کرکٹ ٹٰیم نے۔ یہ وہی ٹیم ہے جو ہر جتن کرنے کے باوجود ایک ایک میچ جیتنے کو ترستی تھی مگر گزشتہ آٹھ ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اِس ٹیم نے اپنی کارکردگی کے ذریعے دنیا کی ہر ہر ٹیم کے لیے خطرے کے لیے گھنٹی بجادی ہے۔ بنگلہ دیش کے لیے یہ سال کامیاب ترین سال ثابت ہورہا ہے اور کیوں نہ ہو۔ پہلے اِس ٹیم نے اپریل میں کھیلی جانے والی تین میچوں پر مشتمل ایک روزہ سیریز میں پاکستان کو وائٹ واش کیا، پھر جون میں بھارت کے خلاف دو۔ایک سے سیریز جیتی اور پھر اگلے ہی ماہ یعنی جولائی میں جنوبی افریقہ کو دو۔ ایک سے شکست دی۔ اب اِس قدر بڑی ٹیموں کو شکست دینے کے بعد بنگلہ دیش ہم پلہ ٹیم کو کیسے بخشتی، اور ایسا ہوا کچھ زمبابوے کے ساتھ جس کے خلاف تیسرے اور آخری ایک روزہ میچ میں 61 رنز سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد سیریز تین۔صفر سے اپنے نام کرلی۔ بنگلہ دیشی کپتان مشرفی مرتضی نے ٹاس جیت پر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا جو بالکل ٹھیک ثابت ہوا۔ تمیم اقبال اور امرول کئیس نے پہلی وکٹ پر ٹیم کو 147 رنز کا شاندار آغاز فراہم کیا۔ دونوں بلے بازوں نے 73, 73 رنز بنائے۔ اِن دونوں کی کوششوں کی لاج رکھی محموداللہ جنہوں نے 52 رنز کی ذمہ دارانہ اننگ کھیلی، یہ ایک روزہ کرکٹ میں ورلڈ کپ کے بعد اُن کی پہلی نصف سنچری تھی۔ جس طرح کا آغاز اوپننگ بلے بازوں نے فراہم کیا تھا اُس کو دیکھتے ہوئے خیال یہی تھا کہ بنگلہ دیش باآسانی تین سو سے زیادہ ہدف دینے میں کامیاب ہوجائے گی مگر زمبابوے کے گیند باز اننگ کے وسط میں واپس آئے اور یکے بعد دیگرے وکٹیں لے کر مہمان ٹیم کو تین سو کے اندر روکنے میں کامیاب رہی۔ جب اقبال اور کئیس بلے بازی کررہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دونوں بنگلہ دیش کی جانب سے پہلی وکٹ پر سب سے بڑی شراکت داری کا ریکارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو 170 رنز پر مشتمل تھی، مگر جزوقتی اسپنر سکندر رضا نے ایسا نہ ہونے دیا اور 73 رنز پر کئیس کی وکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر 25 رنز بعد یعنی 173 پر تمیم اقبال بھی گریم کریمر کی گگلی کا شکار ہوگئے جنہوں نے 98 گیندوں میں چھ چوکے اور ایک چھکے کی مدد سے 73 رنز بنائے تھے۔ اگلے آنے والے مشفقر رحیم نے وکٹ پر آتے ہی رنز کو آگے کی جانب بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا، مگر جب وہ 28 پر پہنچے تو اسپنر میلکم والر کی گیند پر اسٹمپ آوٹ ہوگئے۔ اُن کی وکٹ یقیناً ٹیم کے لیے نقصان دہ تھی کیونکہ اُن کے جاتے ہی ساری ذمہ داری وکٹ پر موجود محموداللہ پر آگئی تھی، جبکہ دوسری طرف وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری تھا، مگر محموداللہ ٹیم کو بڑے اسکور تک لیجانے کی کوشش میں مصروف عمل تھے کہ وہ 40 گیندوں پر 52 رنز بنانے کے بعد رن آوٹ ہوگئے اور یوں مہمان ٹیم نو وکٹوں کے نقصان پر مقررہ اوورز میں 276 رنز بناسکی۔ زمبابوے کی جانب سے لیوک جانگوے اور گریم کریمر نے دو، دو وکٹیں لیں۔ کوئی بھی ٹیم سیریز میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد اعتماد برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں رہتی، اور جب وائٹ واش سے بچنے کے لیے 277 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنا ہو اور پہلی ہی وکٹ جلدی گر جائے تو میچ جیتنے کے عزم میں مزید کمی ہوجاتی ہے، یہی زمبابوے کے ساتھ ہوا کہ چامو چیبابا کی صورت پہلی وکٹ صرف چار رنز پر گرگئی جن کا شکار مستفیض الرحمان نے کیا۔ جس کے بعد وکٹ کیپر ریگس چکبوا اور کریگ اروائن نے ٹیم کو سنبھالا دینے کی کوشش کی مگر وہ زیادہ دیر تک کایاب نہ ہوسکے اور جب ٹیم کا اسکور 43 تک پہنچا تو مستفیض الرحمان نے چکبوا کو بھی آوٹ کرکے اپنی ٹیم کی پوزیشن مزید مستحکم کردی۔۔ ابھی زمبابوے کی ٹیم اِن دو نقصانات سے نکلنے کی ہی کوشش کررہی تھی کہ اروائن آف اسپنر ناصر حسین کی گیند پر 21 رنز بناکر پویلین لوٹ گئے، یوں صرف 47 رنز پر زمبابوے کے تین کھلاڑی ہمت ہار چکے تھے۔ اِن مشکل حالات میں شان ولیمز کا ساتھ دینے کپتان ایلٹن چگمبورا آئے، اور دونوں نے مل کر ٹیم کو سنبھالا دیا اور اسکور کو مزید کسی نقصان کے 127 رنز تک پہنچادیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دونوں بلے باز مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے اور ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرواتے مگر بنگلہ دیشی کپتان ایک بار پھر اپنے سب سے مضبوط ہتھیار مستفیض الرحمان کو لے آئے جنہوں نے ایلٹن چگمبورا کو 43 رنز پر چلتا کیا۔ اگرچہ کپتان کا چلے جانا نقصان دے تھا مگر پھر بھی ولیمز اور نئے آنے والے بلے باز میلکم والر نے ہمت نہیں ہاری اور بتدریج رنز کو آگے کی جانب بڑھاتے رہے یہاں تک کہ ٹٰیم کا اسکور 186 تک پہنچ گیا۔ زمبابے کی ٹیم کو اشد ضرورت تھی کہ یہ شراکت داری مزید آگے بڑھے مگر الامین حسین نے والر کو آوٹ کرکے میزبان ٹیم کو ایک اور نقصان پہنچادیا۔ بس یہ آخری شراکت تھی جس کو دیکھ کر یہ اُمید کی جاسکتی تھی کہ شاید زمبابوے واپس میچ میں آجائے کیونکہ اس کے بعد مسلسل وکٹیں گرتی رہیں اور آخری پانچ وکٹیں صرف 29 رنز پر ڈھیر ہوگئیں۔ زمبابوے کی جانب سے سب سے کامیاب بلے باز شان ولیمز رہے جنہوں نے 64 رنز بنائے، یوں زمبابوے کو بنگلہ دیش کے خلاف تین میچوں پر مشتمل ایک روزہ سیریز میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا۔ زمبابوے کی جانب سے مفتفیض الرحمان نے ایک بار پھر شاندار گیند بازی کرکے خود کو ثابت کیا۔ اُنہوں نے 34 رنز دیکر پانچ وکٹیں لیں۔ مستفیض الرحمان کے بارے میں بات کی جائے تو اِس نوجوان کھلاڑی کی انٹرنیشنل کرکٹ میں آمد ہی شاندار تھی۔ بھارت کے خلاف اپنے پہلے ایک روزہ میچ میں پانچ اور پھر دوسرے ہی میچ میں چھ وکٹیں لے کر سب کو حیران کردیا۔

جب میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دینے کا وقت آیا تو سب کے ذہن میں پانچ وکٹیں لینے والے مستفیض الرحمان کا نام ہی تھا مگر یہ ایوارڈ 73 رنز بنانے والے تمیم اقبال کو دیا گیا، جبکہ مشفیق الرحیم کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔