عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: سچن کا شعیب کو کرارا چھکا

0 1,149

ہند و پاک کے کرکٹ شائقین کو اپنی ٹیموں کے ساتھ اتنی جذباتی وابستگی ہے کہ انہیں ہار کسی صورت گوارہ نہیں۔ فتح و شکست، جس کی حیثیت اعدادوشمار کی معمولی تبدیلی کے سوا کچھ نہيں، سرحد کے دونوں اطراف بسنے والے کروڑوں کرکٹ دیوانوں پر برق بن کر گرتی ہے۔ صرف ہار جیت ہی نہیں بلکہ مقابلے کے دوران حریف کا لگایا گیا ہر شاٹ اور اپنی گرنے والی ہر وکٹ شائقین کو صدمے اور غم کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ صورتحال ان فیصلہ کن عالمی مقابلوں میں اور سنگین بلکہ ہیجان انگیز ہوجاتی ہے جہاں شکست خوردہ ٹیم کو مقابلے کی دوڑ سے باہر ہونا پڑتا ہے۔ ویسے تو یہ دونوں روایتی حریف کل 5 بار عالمی کپ میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ہیں لیکن اعزاز کی دوڑ میں نازک ترین مرحلے پر ٹکراؤ صرف دو بار ہوا ہے جہاں کسی ایک کی جیت کا نتیجہ دوسرے کے لیے "عالمی جنگ" سے باہر ہوجانے کا پروانہ ہو۔ یہ مواقع ہیں عالمی کپ 1996ء کا کوارٹر فائنل اور عالمی کپ 2011ء کا سیمی فائنل جہاں پاکستان رسوا ہو کر عالمی کپ سے باہر ہوا۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور موقع تھا جہاں پاکستان کی عالمی اکھاڑے میں برقرار رہنے کی امیدیں بھارت کی شکست پر منحصر تھیں۔

سچن تنڈولکر نے شعیب اختر  کے تمام پرانے حساب چکتا کردیے (تصویر: Getty Images)
سچن تنڈولکر نے شعیب اختر کے تمام پرانے حساب چکتا کردیے (تصویر: Getty Images)

عالمی کپ 2003ء کہ جہاں پاکستان اور بھارت ایک ہی گروپ میں تھے اور دونوں ممالک کا شمار اعزاز کے مضبوط امیدواروں میں ہوتا تھا۔ سچن تنڈولکر، سارو گانگلی، وریندر سہواگ اور راہول ڈریوڈ جیسے مایہ ناز اور قابل اعتماد بلے بازوں کی حامل بھارتی ٹیم کا مقابلہ وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر جیسے خطرناک پاکستانی گیندبازوں سے تھا، جو کسی بھی حریف کی بلے بازی کی کمر توڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ گروپ مرحلے میں پاکستان آسٹریلیا اور انگلستان کے ہاتھوں پٹنے کے بعد نمیبیا اور نیدرلینڈز جیسی ٹیموں کے خلاف فتوحات کے بعد امیدیں روشن کیے بیٹھا تھا جبکہ بھارت ناقابل تسخیر آسٹریلیا کے ہاتھوں واحد شکست کے ساتھ گروپ میں دوسرے مقام پر تھا۔

یکم مارچ 2003ء کو بھارت اور پاکستان کا مقابلہ ہونا تھا۔ یہ گروپ مرحلے میں بھارت کا آحری مقابلہ تھا اور اگلے مرحلے یعنی سپر سکسز کے لیے اس کی جگہ پکی ہو چکی تھی یعنی بھارت کے پاس اس مقابلے میں گنوانے کے لیے کچھ نہیں تھا لیکن روایتی حریف پاکستان گویا "لب گور" پہنچ چکا تھا۔ بھارت کے ہاتھوں شکست اپنی جگہ لیکن ہار اسے عالمی کپ سے تقریباً باہر کر رہی تھی۔ گویا پاکستان کے لئے یہ ’’کرو یا مرو‘‘ کا نہیں بلکہ ’’مرو یا مارو‘‘ کا معاملہ ہو چکا تھا۔ یہ وہ صورتحال تھی جس نے پاکستان کو’’ مظلوم‘‘، ’’معصوم‘‘ اور قابل رحم بنا کر رکھ دیا تھا اوربھارتی شائقین اس کا خوب مزہ لوٹ رہے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ چل رہے تھے۔ مرکز کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ تمام روابط منقطع کر رکھے تھے۔ تقریباً تین برس بعد دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے کے مقابل آئی تھیں۔ پورے بھارت میں جشن کا ماحول تھا کیونکہ پاکستانی ٹیم کی بے بسی اور باچارگی نے اس مقابلے میں مزید جان ڈال دی تھی۔

پاکستان نے ٹاس جیت کر بلے بازی کی اور سعید انور کی شاندار سنچری کی بدولت 273رنز کا باوقار مجموعہ کھڑا کرڈالا۔ جس کو عبور کرنا بھارت کے لیے ناممکن تو نہیں تھا لیکن پاکستانی تیز گیندبازی کی خطرناک مثلث شعیب، وسیم اور وقاراس ہدف کی ایسی دفاعی دیوار تھے جس کو منہدم کیے بغیر بھارت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔

پاکستانی ٹیم 273رنز کے مجموعے سے کسی حد تک مطمئن توتھی لیکن روایتی حریف کو شکست دے کر سپر سکسز مرحلے میں پہنچنے کا دباؤاس پر اتنا شدید تھا کہ ابتدائی اوور میں ہی اس کے اثرات نظر آنے لگے۔

وسیم اکرم سے ان کی ٹیم کو بڑی امیدیں تھیں ۔ بلے بازی کے لیے ساز گارسنچورین کی پچ پر جب وہ اپنا اور اپنی ٹیم کاا فتتاحی اوور لے کر آئے تو سچن اور سہواگ نے بھی اپنا رخ بالکل واضح کر دیا۔ دونوں کے بلے سے پہلے ہی اوور میں دو زناٹے دار چوکوں نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ اسٹیڈیم میں بیٹھے شائقین کو بھی ششدرکر دیا۔لیکن عالمی کپ کے اس تاریخی میچ کا اصل ’’تماشہ‘‘ تو ابھی باقی تھا۔ تین گیندوں اور چند منٹوں کے اس ’’تماشے ‘‘ نے پاکستانی گیندبازوں کو حواس باختہ کرڈالا۔ اس تماشے کے مرکزی کردار بنے دنیا کے تیز ترین گیند باز شعیب اختر۔

دوسرے اوور کے ساتھ جب شعیب اختر گیند بازی کرنے آئے تب ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ سچن تنڈولکر آج ان سے ان کے پرانے حساب کتاب چکتا کرنے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔ پہلی تین گیندوں تک تو حالات ٹھیک ٹھاک لگے لیکن چوتھی گیندسے شعیب پر آفت کا نزول شروع ہوا۔پہلے تو انہوں نے ایک بڑی وائڈ گیند دے ڈالی جس پر سہواگ نے ایک دوڑ لی اور پھر سچن شعیب پر عذاب بن کر نازل ہوئے۔ اگلی گیند جو شارٹ پچ تھی، پوری رفتار کے ساتھ بالکل آف اسٹمپ کے باہر جا رہی تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سچن اس چھیڑ چھاڑ کیے بغیر وائیڈ کاایک رن لیں گے۔ لیکن یہ کیا؟؟ ۔۔۔۔ آف اسٹمپ کے باہر اچھال لیتی گیند کو انہوں نے صرف بلّا دکھایا اوردیکھتے ہی دیکھتے گیند تھرڈ مین کے اوپر سے پرواز کرتی ہوئی سیدھی باؤنڈری سے باہر جا گری۔ اس گیند کی رفتار اتنی تھی کہ سچن کے وزنی بلے کا صرف صحیح سمت میں اشارہ ہی اسے ایک شاندار چھکے میں تبدیل کر گیا۔ شعیب تھوڑی دیر کے لیے حواس باختہ ہوگئے لیکن فوراً انتقامی جذبہ لیے دوبارہ گیند پھینکنے کے لیے تیار تھے۔ پاکستانی خیمہ اس انتظارمیں تھا کہ شعیب کسی زخمی شیر کی طرح سچن پر کوئی خطرناک حملہ کریں گے۔ کمنٹری باکس میں بیٹھے روی شاستری کے منہ سے برجستہ یہ جملہ ادا ہواکہ ’’اس کا جواب کیا ہوگا‘‘۔لیکن یہ دن شعیب کی رسوائی کا دن تھا۔ وہ اس کا جواب کیا دیتے، سچن نے انہیں سنبھلنے سے پہلے ہی اسکوائر لیگ کی جانب دوسرا چوکا جڑ دیا۔ چوکے اور چھکے تو سبھی بلے باز لگاتے ہیں اور نہ یہ موقع دنیائے کرکٹ میں پہلی بار پیش آیا تھا کہ کوئی بلے باز کسی گیند باز کو اس کی متواترگیندوں پر بے رحمی سے دھلائی کر رہا ہو۔ لیکن یہ منظر اپنے آپ میں منفرد اور عجیب تھا۔بے حد کشیدہ ماحول میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والا یہ محض میچ نہیں تھا بلکہ اعصاب اور جذبات کا مقابلہ تھا۔ ایک فریق کا سکون صرف دوسرے کو پسپا کر نے میں پنہاں نہیں تھابلکہ وہ اسے پوری طرح رسوا و برباد کر دینا چاہتا تھا۔ سچن شعیب کے ساتھ یہی کر رہے تھے۔ دو گیندوں پر متواتر باؤنڈریز کے بعد شعیب کی آخری گیند بھی نہیں بخشی گئی اور اسے بھی سچن نے انتہائی حسین چوکے میں تبدیل کر ڈالا۔ یوں تین مسلسل گیندوں پر16رنوں کی زبردست پٹائی کے ساتھ شعیب کے پہلے ہی اوور میں بھارت نے 18 رنز بنا ڈالے۔

شعیب اس اوور کے بعد دوبارہ سچن کے مقابل کھڑے ہونے کا حوصلہ نہ کر سکے۔ وہ خود حوصلہ بھی کرتے تو کپتان وقار یونس کا اعتماد ان پر سے بالکل ہی اٹھ چکا تھا۔ انہوں نے خود شعیب کی جگہ لی۔ لیکن جو کاری ضرب سچن نے شعیب کے اوور میں لگا ئی تھی اس کے نتائج دور رس تھے۔ وقار کے پہلے اوور کاآغاز بھی سہواگ کے چھکے اور سچن کے چوکے کے ساتھ ہوا۔ اپنے دوسرے اوور میں انہوں نے سہواگ اور گانگلی کی قیمتی وکٹیں ضرور لے لیں۔ سچن کا لگایا گیا زخم کاری تھا۔ 32 رنز کے ذاتی اسکور پر اگر سچن کا ایک مشکل کیچ عبدالرزاق پکڑ لیتے تو شاید ا س میچ کا نتیجہ بدل جاتا اور شاید شعیب کی گیندوں پر سچن کے تابڑ توڑ چھکے اور چوکے کی گونج کی بازگشت آج کم سنائی دیتی۔

98رنز پر شعیب اختر نے ایک خوبصورت باؤنسر پر آؤٹ کرکے اپنے زخموں کی ٹیس کی شدت کچھ کم ضرور کی لیکن صرف 28 ویں اوور میں بھارت کا 177 رنز تک پہنچ جانا پاکستان کے لیے خاطر خواہ نتیجہ نہیں تھا اور راہول ڈریوڈ اور یووراج سنگھ نے بھارت کو باآسانی ہدف تک پہنچا دیا۔

اس طرح پاکستان کی عالمی کپ میں بھارت کے ہاتھوں ہارنے کی روایت پر قائم رہا، جو ہنوز برقرار ہے۔ اس شکست کے بعد پاکستان کی عالمی کپ 2003ء کے سپر سکسز مرحلے میں رسائی کی امیدیں بہت کم ہوگئیں اور زمبابوے کے خلاف اگلے مقابلے کے بارش کی نذر ہوجانے کے بعد تو پاکستان کو پہلے ہی مرحلے میں وطن واپسی کی راہ لینی پڑی۔ پاکستان کے علاوہ میزبان جنوبی افریقہ اور انگلستان بھی سپر سکسز مرحلے تک نہ پہنچ سکے اور ان تین بڑی ٹیموں کے باہر ہونے اور زمبابوےاور کینیا کے اگلے مرحلے تک پہنچنے سے عالمی کپ کا مزا کرکرا ہوگیا۔

سچن تنڈولکر نے اس اننگز کو اپنے کیریئر کی بہترین باری قرار دیا۔ ملاحظہ کیجیے: