عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: پاکستان کے لیے باران "رحمت"

0 1,124

بارش کو برصغیر میں باران رحمت کہا جاتا ہے لیکن کرکٹ کے کھیل کے لیے بارش سے بڑی کوئی زحمت نہیں۔ کھلاڑیوں اور تماشائیوں کی میدان میں موجودگی اور ٹیلی وژن پر نظریں جمائے مقابلے کے منتظر شائقین کو بارش سے بڑی کوفت ہوتی ہے لیکن یکم مارچ 1992ء کو یہ بارش پاکستان کے لیے واقعی رحمت بن کر آئی۔

عالمی کپ 92ء میں انگلستان پاکستان کے مقابلے میں بہت بدقسمت رہا، پہلے مرحلے میں جیتا ہوا مقابلہ بارش کی نذر ہوا اور فائنل میں بھی شکست ہوئی (تصویر: Getty Images)
عالمی کپ 92ء میں انگلستان پاکستان کے مقابلے میں بہت بدقسمت رہا، پہلے مرحلے میں جیتا ہوا مقابلہ بارش کی نذر ہوا اور فائنل میں بھی شکست ہوئی (تصویر: Getty Images)

انگلستان کے خلاف عالمی کپ 1992ء کے اہم مقابلے سے قبل پاکستان ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں 10 وکٹوں کی کراری شکست کھا چکا تھا، لیکن زمبابوے کے خلاف جیت نے اوسان بحال کردیے تھے۔ ایڈیلیڈ میں انگلستان کے خلاف مقابلے میں ضروری تھا کہ پاکستان اپنی بالادستی ثابت کرے۔ پھر پاکستانی کھلاڑیوں نے ایک تاریخ رقم کی، خوش مت ہوں، اپنی ایک روزہ تاریخ کے بدترین اسکور پر آؤٹ ہو کر اور عالمی کپ میں کسی بھی ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کے کم ترین مجموعے پر ڈھیر ہوکر۔

عمران خان کی عدم موجودگی میں جاوید میانداد کی زیر قیادت کھیلے گئے اس مقابلے کے آغاز ہی سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وکٹ میں بارودی سرنگیں نصب ہوں۔ گزشتہ روز کی بارش کے بعد وکٹ میں تیز گیندبازوں کے لیے اچھی خاصی مدد موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انگلستان نے پہلے گیند سنبھالی اور پھر پاکستان کے چاروں خانے چت کردیا۔

پاکستانی اننگز کے دوران جب کپتان جاوید میانداد کے علاوہ رمیز راجہ، انضمام الحق، عامر سہیل اور اعجاز احمد اپنی باریاں مکمل کرکے واپس آ چکے تھے تو اسکور بورڈ پر صرف 32 رنز موجود تھے۔ تین چوکوں سے مزین 17 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد سلیم ملک اور وسیم اکرم این بوتھم کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے تو بھی اسکور صرف 42 رنز تھا۔ اس مرحلے پر وسیم حیدر اور مشتاق احمد نے مجموعے کو 74 رنز تک پہنچایا۔ پاکستانی اننگز میں سلیم ملک کے علاوہ یہی دو بلے باز دہرے ہندسے میں پہنچے۔

پاکستان کی آخری دو وکٹوں کی جانب سے بنائے گئے 27 رنز بھی اسے بدترین مجموعے کی ہزیمت سے نہ بچا سکے۔ انگلستان کے ڈیرک پرنگل نے 8.2 اوورز میں صرف 8 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں جبکہ فل ڈیفریٹس، گلیڈسٹون اسمال اور این بوتھم نے دو، دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ وکٹ کیپر ایلک اسٹیورٹ کے تین شاندار کیچز کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جس میں سے ایک کیچ وہ تھا جو انہوں نے سلپ میں ڈراپ ہونے کے بعد زمین پر گرنے سے پہلے تھاما تھا۔

اس جاندار کارکردگی کے بعد ایک اور شاندار جیت انگلستان کی منتظر تھی۔ وہ ابتدائی مقابلوں میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کو زیر کرچکا تھا اور پاکستان کے خلاف معمولی ہدف کا تعاقب اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل دکھائی دیتا تھا لیکن بارش آڑے آ گئی۔ تین گھنٹے کا کھیل ہوا اور انگلستان کے لیے سخت مشکلات کھڑی ہوگئیں۔ وہ 8 اوورز میں ایک وکٹ پر 24 رنز بنا چکا تھا لیکن اس وقت رائج انتہائی متنازع قانون کی وجہ سے اسے 16 اوورز میں 64 رنز کا مشکل ہدف ملا یعنی بقیہ 8 اوورز میں 40 رنز۔ کہاں 1.5 رنز فی اوورز کا درکار ہدف اور کہاں 5 رنز کا درکار اوسط؟ خیر، ویسے بھی اس کی نوبت نہیں آئی کیونکہ مزید بارش نے انگلستان کو طبع آزمائی کا موقع ہی نہیں دیا۔

پاکستان صرف 74 رنز پر ڈھیر ہونے کے باوجود مقابلے سے ایک قیمتی پوائنٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور ظاہر ہوگیا کہ عالمی کپ جیتنے کے لیے صلاحیتوں، کارکردگیوں اور حوصلوں کے ساتھ ساتھ قسمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک پوائنٹ آخر میں کتنا قیمتی ثابت ہوا اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ اگلے دو مقابلوں میں روایتی حریف بھارت اور پھر جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست اسے ٹورنامنٹ سے تقریباً باہر کردیا تھا، لیکن عمران خان کے "شیروں" کے جوابی وار اور بقیہ مقابلوں میں سری لنکا کے علاوہ دونوں میزبان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف فتوحات اس مقام تک لے آئیں کہ وہ سیمی فائنل کھیل سکتا تھا۔ پھر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

ویسے انگلستان کو اس مقابلے کے بعد تو بارش کا قانون بہت برا لگا، لیکن اسی قانون کی وجہ سے وہ سیمی فائنل جیتنے میں کامیاب ہوا اورفائنل میں ایک بار پھر پاکستان کے مدمقابل آیا۔ اس مقابلے کی داستان سلسلے کی آئندہ اقساط میں۔ تب تک آپ پاکستان کے بلے بازوں کی اس "شاندار" کارکردگی کو دیکھیں، یہی بلے باز تھے جنہوں نے بعد میں عالمی کپ بھی جتوایا۔